اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط دوم)

شئر کریں

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

گذشتہ قسط کے قارئین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ اسلامک بینک اپنے پروڈکٹس پر روایتی بینک سے بھی زیادہ چارجز وصول کرتے ہیں، یہ کس طرح سے اسلامی ہیں۔ اس سلسلہ میں چند گذارشات عرض ہیں۔
میڈیکل ایک مقدس پیشہ ہے ، لیکن اگر کوئی ڈاکٹر ادویہ ساز کمپنیوں کے لیے کمیشن پر کام کرتا ہے یا پھر بہت زیادہ فیس وصول کرتا ہے تو قصوروار کون ہے ڈاکٹر یا میڈیکل پروفیشن؟ اسی طرح ایک اصولی طور پر اسلامک بینکنگ کے لئے استعمال ہونے والے معاملات کا جواز ہے اور ایک آج کے اسلامک بینکرز کی اصل پریکٹسز ہیں، ان دونوں میں تفاوت ہو سکتا ہے۔

میں انشاء اللہ اگلی اقساط میں وضاحت کروں گا کہ اسلامک بینکنگ کے لئے مرابحہ سے بہتر آپشن موجود ہیں ، لیکن بالفرض مرابحہ جس کی گذشتہ قسط میں تفصیل سمجھائی گئی تھی ، اسے ہی استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں کائبور یا کسی دوسرے سودی بینچ مارک کو استعمال کرکے اسلامی اور روایتی بینکاری کے درمیان فرق کو دھندلانا موجودہ اسلامی بینکاری کے کرتا دھرتاؤں کا سیاہ کارنامہ ہے۔ انہیں سودی بینچ مارک سے مکمل علیحدگی اختیار کرلینی چاہئیے۔ متوقع افراط زر+3 کا بنچ مارک میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے، افراط زر سے انڈیکسنگ بینک کو نقصان سے بچائے گی، اور +3 فیصد ان کی خدمات کی قیمت پوری کر لے گا۔ انہیں اپنا بینچ مارک جدا کر لینا چاہیے اور اس کے نتیجے میں جو کاروباری خدشات risk پیدا ہوتا ہے ، انہیں برداشت کرنا چاہیے، کیونکہ رسک افورڈ کرنا ہی اسلامی مالیاتی نظام کا مطمع نظر ہے۔

لیکن یہ بات مدنظر رہے کہ اگر آپ کے محلے کا ڈاکٹر ناجائز طور پر زیادہ فیس لیتا ہے تو اس کے اس عمل سے متفق نہ ہونے کے باوجود آپ یہ نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر سے تنگ آکر درزی سے علاج کروائیں۔ روایتی بینک سے زیادہ چارجز وصول کر کے اسلامی بینک مسلمان ہونے کی اضافی فیس وصول کرتے ہیں اور فرق کو دھندلاتے ہیں، لیکن ان کی یہ پریکٹس بنیادی طور پر ایک شرعی لحاظ سے قابل قبول معاہدہ کو حرام نہیں بناتی۔

اسلامی بینکاری اور مقاصد شریعہ

آپ اگر شریعت کے مواخذ یعنی قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور فقہ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو فقہ المالیات کے ضمن میں مشارکہ اور مضاربہ کا تذکرہ نمایاں طور پر ملے گا، جو رسک شیئرنگ معاہدات ہیں۔

مشارکہ یہ ہوتا ہے دو یا زیادہ فریق مل کر کاروبار شروع کریں، وہ دونوں سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیاں دونوں میں شامل ہوں اور کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع یا نقصان کو تقسیم کریں۔ مضاربہ یہ ہوتا ہے کہ ایک فریق رقم فراہم کرے، دوسرا فریق خدمات فراہم کرے اور نفع یا نقصان کو باہم تقسیم کیا جائے۔ یہ دونوں معاہدات نفع یا نقصان کی تقسیم پر مبنی ہیں، لیکن آج کا اسلامی بینکاری نظام مرابحہ اور اجارہ پر زیادہ انحصار کرتا ہے یہ دونوں معاہدات بینک کو کاروباری نقصان کے خدشات سے محفوظ رکھتے ہیں ، لیکن اسلامی مالیات اور روایتی بینکاری کے درمیان واضح فرق کو دھندلانے کے ساتھ ساتھ شریعت کے وسیع تر مقاصد سے انحراف کا سبب بنتے ہیں۔ شریعت کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ مالیاتی نظام ایسے ترتیب دیا جائے جو ارتکاز دولت concentration of wealth میں کمی کا سبب بنے۔ موجودہ اسلامی بینکاری نظام میں سرمایہ دار رسک میں شریک ہوئے بغیر لامتناہی پرافٹ کما سکتا ہے، اور یہ طریقہ ارتکاز دولت کا سبب بنتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کاروبار سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کاروبار سے وابستہ خدشات risks کو بھی برداشت کرنا چاہئے۔ جبکہ مرابحہ کا معاہدہ کاروباری خدشات کو تقریبا ختم کر دیتا ہے۔ چنانچہ شرعی طور پر جواز کے باوجود موجودہ اسلامی بینکاری نظام وسیع تر مقاصد شریعت سے مطابقت کے حوالے سے مثالی نظام نہیں ہے۔

مرابحہ کو بطور بنیادی معاہدہ استعمال کرنے کے دو بڑے نقصانات یہ ہیں کہ ایک تو عام لوگوں کے لئے اسلامی اور روایتی بینکاری میں فرق سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے دوسرا یہ کہ رسک/پرافٹ شیئرنگ جو کہ اسلامی کاروباری معاہدات کی روح ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے ، چنانچہ یہ درست طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ اسلامی بینکاری نظام کے شرعی جواز پر اعتراض بے بنیاد ہیں ، لیکن اس کی وسیع تر مقاصد شریعت کے ساتھ ہم آہنگی موجود نہیں۔ موجودہ وقت میں سود سے بچنے کے لئے اسلامی بینکوں کی مالیاتی سروسز استعمال کی جا سکتی ہیں، لیکن ان سے بہتر آپشنز کی تلاش جاری رہنی چاہئے۔ اگلی قسط میں انشاء اللہ یہ بحث کی جائے گی کہ اسلامی بینکاری کے لئے زیادہ بہتر آپشن کیا ہو سکتے ہیں

مصنف کے بارے میں

Atiq ur Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *