|

انٹرنیٹ کی بندش سے نوجوان اضطراب کا شکار

شئر کریں

تحریر :محمد شہزاد خان

حال ہی میں بی بی سی پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق انٹرنیٹ کی ایک گھنٹے کی بندش سے دس لاکھ ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے انٹرنیٹ سے جڑے روز گار سے زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی وابستہ ہے اسی رپورٹ میں ایک سروے کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ موبائل انٹرنیٹ کی رفتار کے اعتبار سے پاکستان ایک سو گیارہ ممالک کی فہرست میں ستانوے نمبر پر ہے جو انتہائی مایوس کن اور افسوس ناک ہے رواں سال تقریباً چار ہزار آئی ٹی کمپنیز نے پاکستان چھوڑ کر دبئی میں رجسٹریشن کروائی ہے ۔

آئی ٹی کو ایکسپورٹ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی اور بندش کو ختم کر دیا جائے تو پاکستان میں پندرہ ارب ڈالرز کی منڈی موجود ہے ۔

آج دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے آگے نکل کر نہ صرف آرٹیفیشل جنرل انٹلیجنس بلکہ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کے مراحل طے کر رہی ہے جس کے لیے دنیا بھر میں نئی قانون سازی ہو رہی ہے اور باقاعدہ بجٹ مختص کیے جانے لگے ہیں ۔
تیزی سے بدلتی دنیا ہمارے لیے اس لیے زیادہ آزمائش بن گئی ہے کہ ایک سمارٹ فون کا حامل شخص اپنے فون کو تقریباً دو ہزار چھ سو مرتبہ ٹچ کرتا ہے جس سے اسکی زندگی کے ہر شعبہ میں اثرات مرتب مرتب ہوتے ہیں ۔
اگر آزاد کشمیر کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کے استعمال سے متعدد کمپنیز جوڑی ہیں پاکستان کے حالات کا آزاد کشمیر پر برائے راست اثر پڑتا ہے آیک محتاط اندازے کے مطابق کشمیر کی پانچ جامعات اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہر سال تقریباً پندرہ سے بیس ہزار گریجویٹ فارغ ہو کر روزگار کی تلاش میں مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں واضح رہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ گلف ممالک سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے معاشی حالات اور قانون سازی سے بھی ہم اس لیے متاثر ہوئے ہیں کہ کشمیر کے عوام بڑی تعداد میں ان ممالک میں روزگار سے منسلک ہیں ۔
سال دو ہزار چوبیس اس اعتبار سے منفرد رہا کہ عوام نے متفقہ طور پر بھرپور مظاہروں کی صورت میں حکومتی پالیسیوں پر ردعمل کا اظہار کیا مظاہرین میں بڑی تعداد نوجوانوں کی شریک رہی بیوپاریوں یعنی تاجر بھی اس میں بھرپور شریک رہے ۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد کا مظاہروں میں شریک ہونا ریاست میں جاریہ عوام اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدہ یعنی سوشل کنٹریکٹ کے کمزور ہونے کی واضح دلیل ہے محض کاغذ کا ٹکڑا تھامے ہر سال پندرہ سے بیس ہزار گریجویٹ کی کھپت کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہم براہِ راست متاثر ہونا شروع ہو گئےہیں تقسیم کے وقت آزاد کشمیر کی کل ابادی چھ لاکھ کے قریب تھی جبکہ آج چھیالیس لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے جنگلات ساٹھ فیصد سے کم ہو کر صرف نو فیصد بچے ہیں جنکی کٹائی محکمہ جنگلات اپنی سرپرستی میں کروا رہا ہے مقامی پیداواری زرائع نہ ہونے کے برابر ہیں ہم اس خطے کی سب سے بڑی کنزیومر سوسائٹی بن کر رہ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک عالمی ادارے کے سروے کے مطابق ساٹھ فیصد کے قریب بچے غذائی کمی کا شکار ہیں انہیں مناسب نیوٹریشن میسر نہیں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے آن حالات میں نوجوانوں کے جذبات اس قدر بپھرے ہوئے کہ انہیں کوئی بھی اپنے خفیہ یا ظاہری مقاصد کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے پیسوں کے عوض صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا تھامایا ہے اسے اپنے دستیاب وسائل میں رہ کر جینا نہیں سکھاتا ہے دوسری طرف چھوٹی سی ریاست میں قبیلائ اور علاقائی بنیادوں پر انتظامی یونٹس قائم کیے گئے ہیں جن میں کام کرنے والی بیوروکریسی یہاں کے شہریوں کے لیے معاشی بوجھ کے سوا کچھ نہیں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس خطے میں بچوں کے کلاس رومز بکریوں کے باڑے جیسے ہوں لیکن اشرافیہ کی مراعات اور سہولیات جدید ترین ہوں تو وہاں سوالات اٹھائے جانا غیر فطری ابھار نہیں ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی ہم برائے راست متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں لاپرواہی کا سلسہ جاری رہا اور مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اس خطے کے بیشتر علاقے ناقابل رہائش بنجر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس بحث میں جائے بغیر کہ مظاہرین کے پیچھے یا آگے دیکھائی دینے والا اور نہ دیکھائی دینے والا کون ہے نوجوانوں کے جذبات احساسات اور خیالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تنگ دستی اور بے روزگاری اعلی اخلاقیات کی ضد ہوتے ہیں معاشی آور معاشرتی ناہمواریاں کی وجہ سے ہی اشرافیہ کی مراعات اب نوجوانوں پر بجلی بن کر گر رہی ہیں ۔


شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *