بنجونسہ جھیل کے نزدیک گیسٹ ہاؤسز کے خلاف احتجاج، معاملہ کیا ہے؟
تحریر حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے خوبصورت سیاحتی مقام بنجونسہ میں 3 دیہاتوں کے سنگم پر ایک خوبصورت لیکن مصنوعی طور پر بنائی گئی جھیل موجود ہے۔ یہ جھیل بنجونسہ جھیل کے نام سے مشہور ہے، تاہم دیہاتوں کے مابین زمین کی حد بندی سمیت دیگر تنازعات میں جھیل کا نام بھی متنازع ہو چکا ہے۔ طویل عرصہ سے یہ علاقہ تنازعوں میں گہرا ہوا ہے۔
تجاوزات کے خلاف آپریشن سے کام شروع ہوا اور زیر تکمیل ہاؤسنگ منصوبہ کے خلاف عدالتی جنگ سے جھیل کی زمین کی دیہاتوں کے مابین حدبندی کے تنازعے تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہے۔ اب اس جھیل کے نزدیک محکمہ دفاع کی جانب سے الاٹ کروائی گئی زمین پر تعمیر شدہ آرمی گیسٹ ہاؤس کے نزدیک سیپٹک ٹینک اور دیگر طرح کی تعمیرات کے بعد ایک نیا تنازع ابھرا ہے۔
اہل علاقہ نے نئی تعمیرات کو جنگل کی زمین پر فوجی قبضے سے تعبیر کیا ہے اور اس تعمیرات کو ختم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ کو 20 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ 22 دسمبر کو یہ تعمیرات عوامی طاقت کے ذریعے اکھاڑنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس سلسلے میں تیاری کی جا رہی ہے۔
اس نئے تنازعے کو حل کرنے کے لیے منگل کے روز ضلعی انتظامیہ کا ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہوا ہے، جس میں آرمی کے نمائندوں سمیت مختلف متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں اور سول سوسائٹی کے کچھ افراد نے بھی شرکت کی۔ متعلقہ ذمہ داروں نے بریفنگ بھی دی اور اپنا اپنا موقف بھی پیش کیا۔
مجموعی طور پر جو بات سامنے آئی ہے، اس کے مطابق یہ ساری زمین مہاراجہ دور سے کراؤن لینڈ تھی اور جنگل کے لیے مختص تھی۔ 1947 کے بعد یہ محکمہ جنگلات کے انتظام میں آگئی۔ حکومت نے ایک وقت میں ایک آرڈیننس کے تحت اس علاقے میں زمین کا ایک بڑا حصہ جنگلات سے لے کر محکمہ پبلک ورکس (پی ڈبلیو ڈی) کے حوالے کیا۔ اسی زمین میں سے پی ڈبلیو ڈی نے محکمہ دفاع، پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو لیز پر کچھ زمین دی اور محکمہ نے خود بھی گیسٹ ہاؤس تعمیر کیے۔ کچھ زمین پرائیویٹ شہریوں کو بھی گیسٹ ہاؤس کے لیے الاٹ کی گئی ہے۔ تاہم اس کی تفصیل موجود نہیں ہے۔ کچھ ایسی زمین بھی ہے جس پر مقامی شہریوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔
بعد ازاں ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے یہ اراضی پی ڈی اے کے زیر انتظام چلی گئی، جس نے متعدد ریاستی و غیر ریاستی افراد کو پلاٹس الاٹ کر دیئے۔ تاہم تعمیراتی کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ چیف سیکرٹری وقت نے یہاں ہاؤسنگ سکیم منصوبے کو ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ اہل علاقہ بھی ہاؤسنگ سکیم کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
چیف سیکرٹری (وقت) نے یہ احکامات مقامی شہری کی تعمیرات ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گرانے کے آپریشن کے بعد دیے تھے اور اس وقت مقامی شہری کو بھی گیسٹ ہاؤس کی حد تک تجاوزات قائم رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ پی ڈی اے نے عدالت العالیہ سے رجوع کیا اور ہاؤسنگ سکیم دوبارہ بحال ہو گئی۔ تاہم مقامی لوگ اور حکومت سپریم کورٹ چلے گئے۔
سپریم کورٹ نے وہ بنیادی آرڈیننس ہی منسوخ کر دیا، جس کے تحت جنگل کی زمین کو تعمیراتی مقاصد کے لیے دوسرے محکموں کو منتقل کیا گیا تھا۔ یوں یہ ساری زمین اب محکمہ جنگلات کو منتقل ہو چکی ہے اور جتنی بھی تعمیرات اس زمین پر ہوئی ہے وہ سب اب غیر قانونی ہو چکی ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں تمام الاٹمنٹس منسوخ ہو چکی ہیں۔
پی ڈبلیو ڈی، پی ٹی ڈی سی (ٹورازم)، آرمی گیسٹ ہاؤس سمیت سرکاری و نجی تعمیرات سب غیر قانونی قرار پا چکی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں تمام رائج الوقت قانونی لوازمات پورے کر کے محکمہ دفاع اور پی ٹی ڈی سی نے الاٹمنٹ حاصل کی تھی۔
انتظامیہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے، جو اس معاملے کو حل کرنے کے لیے موقع بھی دیکھے گی، پیمائش بھی کرے گی اور اہل علاقہ سے بھی مذاکرات وغیرہ کرے گی اور اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
بہر حال یہ معاملہ اب کافی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ محکمہ جنگلات تمام پراپرٹی کو اپنی تحویل میں لے لے اور کھلی بولی کے ذریعے مقامی آبادی کے لوگوں کو ٹھیکے پر دے دے۔ تاہم مزید تعمیرات کا سلسلہ بند کیا جائے اور ان گیسٹ ہاؤسوں، جھیل پر کشتی رانی سے حاصل ہونے والی آمدن جھیل کو صاف اور قدرتی ماحول و حسن کو برقرار رکھنے کے لیے خرچ کیا جائے