اسلامی بینکاری ؛ میری نظر میں

اسلامی بینکاری ؛ میری نظر میں (قسط اول)

شئر کریں

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

اسلامی اور روایتی بینکاری کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں سود اور دیگر غیر ممنوعہ کاروبار کی اجازت نہیں ہے، جبکہ روایتی بینکنگ سسٹم میں سود ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ روایتی بینکاری میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سود کے بغیر بینک منافہ بخش انداز میں چل نہیں سکتا لیکن اسلام اور دیگر آفاقی مذاہب سود سے شدید الفاظ میں منع کرتے ہیں۔

روایتی بینکاری کے مقابلے میں اسلامک بینکنگ متعارف کروائی گئی تاکہ لوگوں کو سود کے بغیر مالیاتی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ اسلامی بینکاری نظام کی شرح نمو تو کافی تیز ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک لوگوں کی بہت بڑی تعداد روایتی بینکاری نظام میں اپنے کاروبار زندگی کو چلا رہی ہے۔ ایک مسلمان متبادل کے موجود ہوتے ہوئے سودی مالیاتی نظام کو نہیں اپنا سکتا۔ اگر موجودہ اسلامی بینکاری نظام کی موجودگی میں روایتی بینکاری نظام بھی ترقی کر رہا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں نے موجودہ اسلامی بینکاری نظام کو ایک درست متبادل کے طور پر قبول نہیں کیا، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینکاری نظام اور روایتی بینکاری نظام میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ سود اور اس سے متعلقہ دیگر اصطلاحات کی تفہیم پیدا کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ موجودہ اسلامی بینکاری نظام کس حد تک اسلامی کہلانے کے قابل ہے۔

سود کیا ہے؟ ۔

سود یا ربا کی دو بنیادی اقسام ہیں جنہیں ربا النسیہ اور ربا الفضل کہتے ہیں۔ ربا النسیہ وہ سود ہے جو تاخیری ادائیگی پر وصول کیا جائے مثلا ایک شخص آج بینک سے ہزار روپے قرض لے اور سال کے بعد 1200 روپے واپس کرے تو یہ ربا النسیہ کہلاتا ہے۔

ربا الفضل؛ ربا الفضل سے مراد دو ایک جسے جیسی چیزوں کا غیر مساوی مقدار میں تبادلہ ہے۔ مثلا اگر بینک کسی کو 100 گرام سونا دے کر بدلے میں 110 گرام سونے کا تقاضہ کرے تو یہ ربا الفضل کہلائے گا۔

یہاں ایک بنیادی فرق سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ایک بینک 100 گرام سونا دے کر اس کے بدلے 110 گرام سونا طلب کرتا ہے تو یہ ربا میں شامل ہے۔ اس کے برعکس اگر بینک 100 گرام سونا دے کر بدلے میں چاندی کی کوئی مقدار طلب کرتا ہے تو اسے سود نہیں کہا جائے گا، اگرچہ چاندی کی مقدار سونے کی مروجہ قیمت سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ جب دو اجناس کا اپس میں تبادلہ ہوتا ہے تو اس تبادلہ میں مقدار کی کمی زیادتی پر سود کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔

اسی مثال کو اگے بڑھاتے ہوئے یوں سمجھیے کہ اگر بینک کسی شخص کو 100 روپے قرض دیتا ہے اور جوابا 110 روپے طلب کرتا ہے تو یہ سود میں شمار ہوگا لیکن اگر بینک کسی شخص کو 10 گرام سونا فروخت کر کے بدلے میں روپے طلب کرتا ہے، جو سونے کی مروجہ قیمت سے زیادہ ہیں تو اجناس کے تبدیل ہونے کی وجہ سے اس پر سود کا حکم نہیں لگایا جا سکے گا۔

اسلامی بینکاری کا طریقہ کاروبار

مروجہ اسلامی بینکاری نظام میں مالیاتی خدمات کے لیے مرابحہ اور اجارہ کے معاہدات استعمال کیے جاتے ہیں۔

اگر آپ بینک سے کار کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو ایک اسلامی بینک آپ کو روپے کی شکل میں کوئی ادائیگی نہیں کرے گا، بلکہ اس کی بجائے کار خرید کر آپ کو دی جائے گی اور آپ اس کار کے بدلے بینک کو ادائیگی کر رہے ہوں گے۔ بینک مارکیٹ سے گاڑی خرید کر آپ کو فروخت کرے گا، تیسرے فریق کے ذریعے کسی چیز کی خریداری کروانا مرابحہ کہلاتا ہے۔ بینک مارکیٹ سے کار خرید کر اس میں اپنی خدمات کی قیمت شامل کر کے آپ کو اضافی قیمت میں فروخت کرے گا۔ چونکہ یہ دو اجناس کا تبادلہ ہے اس لیے اسے سود قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اگر کوئی بینک آپ کے نام پر پیسے ریلیز کرتا ہے اور بدلے میں زیادہ پیسے طلب کرتا ہے تو یہ سود شمار ہوگا۔ اسلامی بینک نقدی میں کوئی قرض نہیں جاری کرتے بلکہ یہ آپ کو آپ کی ضرورت کی اشیاء فروخت کرتے ہیں، جن میں وہ اپنی خدمات کی قیمت شامل کرتے ہیں اور خدمات کی قیمت کی وجہ سے آپ کو مطلوبہ اشیاء مارکیٹ سے زیادہ ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔
مارکیٹ میں ایک سے زیادہ قیمتوں کا وجود شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں۔ مثلا آپ مارکیٹ میں جا کر بارگین کرتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قیمت کم کروائی جا سکے اور جو شخص بارگین نہیں کرے گا اسے زیادہ قیمت پر وہی اشیاء دستیاب ہوں گی۔ اشیاء کی قیمتوں کا یہ تفاوت کاروبار کو حرام نہیں بناتا اسی طرح اگر بینک اپ سے رقم زیادہ وصول کرتا ہے تو رقم کے اضافہ کی وجہ سے یہ ٹرانزیکشن حرام قرار نہیں دی جا سکتی۔

مختصراً یہ کہ اگر آپ اشیاء کے بدلے رقم ادا کرتے ہیں تو قیمتوں کا تفاوت کاروبار کو حرام نہیں بناتا۔

اسلامی بینکاری نظام میں دوسرا عام استعمال ہونے والا معاہدہ اجارہ یعنی لیز کا ہے۔ اجارہ کا مطلب کسی شے کے استعمال کے لیے کرایہ کی ادائیگی ہے۔ جس طرح مکان جس میں ہم رہتے ہیں ، کے کرایہ کی ادائیگی حرام نہیں اسی طرح اگر آپ نے کار اجارہ پر لے رکھی ہے تو یہ ڈیل حرام نہیں۔

اکثر لوگوں کا یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک روایتی بینک سے لی گئی کار اور اسلامی بینک اسے لی گئی کار دونوں کے عوض پیسہ دیا جارہا ہوتا ہے، تو اس میں فرق کہاں ہے؟ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ حلال و حرام کے فرق کیلئے یہ ضروری نہیں کہ دونوں اشیاء میں قابل مشاہدہ فرق موجود ہو، مثلا اگر آپ کے سامنے کھانے کی دو پلیٹیں رکھی ہیں، جن میں سے ایک میں مکمل شرعی طریقہ سے ذبح کئے ہوئے مرغ کا سالن ہے، جبکہ دوسرے میں جھٹکے والے مرغ کا سالن ، تو شاید آپ لیبارٹری ٹیسٹنگ سے ان دونوں میں تمیز نہیں کر پائیں گے۔ حلال اور حرام مرغی کے سالن میں اجزائے ترکیبی کے حساب سے کوئی فرق تلاش کرنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن اس کے باوجود حلال و حرام کا فرق موجود ہے اور یہ فرق اس پراسس کی بنیاد پر جسے استعمال کرتے ہوئے مرغ ذبح کیا گیا۔ قابل تمیز نہ ہونے کے باوجود اس فرق کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ آپ کو ٹرانزیکشن میں فرق محسوس ہو ، اگر آپ کو کار دیتے وقت پراسس شرعی طور پر جائز استعمال کیا گیا ہے تو یہ ڈیل حرام تصور نہیں ہوگی۔ مرابحہ کے تحت آپ کو ملنے والی کار آپ بینک سے خرید رہے ہوتے ہیں ، اور اس خریداری کی قیمت کا تفاوت ڈیل کو حرام نہیں بناتا۔

یہ بات بھی مدنظر رہے کہ بظاہر ناقابل مشاہدہ فرق حقیقی زندگی میں نمایاں فرق ڈالتا ہے۔ آپ ایک بچے کی ڈی این اے ٹیسٹنگ کروا کر یہ معلوم نہیں کروا سکتے کہ اس کے والدین کا نکاح ہوا تھا یا نہیں ، تاہم اگر نکاح ہوا ہو تو یہ تعلق باعث برکت ہوتا ہے اور بچہ اپنے والدین کی ذمہ داری میں ان کے زیر کفالت پرورش پائے گا، جس کے مثبت اثرات بچے کی پوری زندگی پر محیط ہوں گے ، بالکل اسی طرح اسلامی اور روایتی بینکاری کے طویل مدتی اثرات میں انتہائی نمایاں فرق ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ دنیا بھر نے 2007-08 کے بحران کے دوران کیا، جب مغرب میں تمام روایتی بینک بری طرح متاثر ہوئے، لیکن اسلامی بینک اس بڑے بحران کے دوران محفوظ رہے۔ اسلامی بینک کی تمام ٹرانزیکشنز حقیقی معیشت سے متعلق ہوتے ہیں جن میں حقیقی اشیاء کی تجارت کی جا رہی ہوتی ہے اور یہ فرق معیشت میں بیجا توقعات speculation اور ناجائز منافع خوری کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

اسلامی بینک فائنانسنگ کے عوض زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں تو اس بات سے تو اتفاق کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ اضافی قیمت کیلکولیٹ کرنے کے لئے کائبور KIBOR یعنی بینکوں کے درمیان ہونے والے معاملات میں استعمال ہونے والی شرح سود کو بنچ مارک کے طور پر استعمال کیا جانا شکوک کا سبب بنتا ہے اور اسلامی بینکاری کے روایتی بینکاری سے فرق میں ابہام پیدا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اپ کاروبار کی نوعیت کو شرعی سمجھتے ہیں تو اضافی قیمت کیلئے کوئی بھی بنچ مارک استعمال کیا جا سکتا ہے، اگر ڈیل سود کے زمرہ میں نہیں آتی تو کائبور صرف ایک نمبر ہے، اور صرف اس نمبر کا استعمال ڈیل کو غیر شرعی نہیں بنائے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سود سے متعلقہ ہر بنچ مارک بے برکتی اور طاغوت کی علامت ہے ، چنانچہ اس سودی بینچ مارک سے احتراز کیا جانا چاہئے۔ میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ اسلامی بینک متوقع کور افراط زر+ 3 فیصد expected core inflation +3% کو بطور بنچ مارک استعمال کریں، اور اس سے پیدا ہونے والے رسک کو افورڈ کریں.
—جاری–

مصنف کے بارے میں

Atiq ur Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

One Comment

  1. Very well written article. I appreciate the effort of the Author who has successfully explained very complex topics in very simple words and appropriate examples

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *