کشمیر، جنگلات کی کٹائی ٹمبر مافیا حکومتی سرپرستی میں سرگرم
تحقیقاتی رپورٹ: سیدہ فائزہ گیلانی
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ادارہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ (پی این ڈی) کی جانب سے 2015 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے سالانہ کتاب چہ
کے مطابق آزاد کشمیر کے جنگلات 13 فیصد تھے جو کہ 2021 کے اعداد وشمار کے سالانہ کتاب چہ کے عداد وشمار کے مطابق مزید کم ہوکر 11فیصد رہ گئے ہیں۔
تاہم مختلف زرائع کے مطابق 2022 ،2023 ،کے دوران یہ جنگلات 11فیصد سے مزید کم ہو کر 8 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جو کہ تشویش ناک صورتحال ہے۔ تیزی کے ساتھ جنگلات کے سکڑنے کی بڑی وجہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ ہے ہرسال وادی نیلم کے میں اٹھمقام ، جورا ،سالخلہ ، جاگراں ، کٹھہ پیراں کیرن ،دواریاں، شاردا، کیل سمیت دیگر علاقوں وادی جہلم، وادی لیپہ ،باغ حویلی، ،کوٹلی اور دیگر اضلاع کے جنگلات سے دیودار ،فر ،کائیل، اخروٹ کی اربوں روپے کی قیمتی لکڑ اسمگلنگ کی جاتی ہے۔
محکمہ جنگلات کے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق صرف جنوری 2023 سے جولائی 2023 تک 1899مکعب فٹ لکڑی جس کی مالیت4220108روپے ہے پکڑی گی۔ تاہم غیر قانونی طور پر ہر روز کتنی لکڑی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے باہر جاتی ہے اس کا کوئی حساب ہی موجود نہیں۔
اس حوالے سے جب محکمہ جنگلات کے سیکرٹری چوہدری امتیاز سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ مارچ 2022 سے جون 2022کے دوران جنگلات میں آگ لگنے کے باعث دس ہزار ایکٹر رقبے کو بڑے پیمانے پر جنگل کو نقصان پہنچا اور اربوں روپے کی قیمتی لکڑی ضائع ہوئی ۔جنگلات میں آگ کیسے لگی اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2017 کے بعد جنگلات سے کسی بھی قسم کی لکڑی کی کٹائی پر مکمل پابندی ہے۔ جس پر سیکرٹری جنگلات سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر پابندی ہے تو جو لکڑی ضبط کی گئی ہے کہاں سے آئی ؟تو انہوں نے اس پر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا ۔انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہاکہ جنگلات کی کٹائی میں سب سے زیادہ عمل دخل مقامی آبادی کا سامنے آتا ہے۔
دوسری جانب جو لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹ کر اسمگلنگ کی کوشش کی جاتی ہے اسے محکمہ جنگلات کے آفیسر کی جانب سے ضبط کر لیا جاتا ہے اس معاملے پر کسی بھی فرد کو کوئی چھوٹ نہیں دی جاتی۔مقامی شہریوں کو جنگلات کی کٹائی سے روکنے کیلئے بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے کوئی متبادل ذریعہ دینے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔یہی وجہ ہے کہ مقامی شہری مکانوں کی تعمیرات اور آگ جلانے کیلئے زیادہ تر لکڑی کاٹتے ہیں۔
سکیرٹری جنگلات کے مطابق کشمیر ڈویلپمنٹ پیکج کے اندر ہم نے شہریوں کی انرجی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مائیکرو ہائیڈل پاور پراجیکٹس تعمیر کی درخواست کی تھی مگر وفاقی حکومت تبدیل ہونے کے باعث اس پر پیش رفت نا ہو سکی۔سیکرٹری جنگلات چوہدری امتیاز نے بتایا کہ کشمیر میں بہت سارے قیمتی درخت جن میں دیودار ،فر اور کائل شامل ہیں۔ناپید ہونے کے قریب ہیں جن کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب سیکرٹری جنگلات نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آزاد کشمیر میں گزشتہ چند سال کے دوران جنگلات میں اضافہ ہوا ہے تاہم ان کے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ریسرچ یا دستاویزی ثابت موجود نہیں ہیں۔ سیکرٹری جنگلات نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ مختلف سٹیک ہولڈرز کی جانب سے ان کو مشکلات کا سامنا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کے لیے اقدامات سخت کرتے ہیں تو ان مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
مقامی شہریوں کی جانب سے محکمہ کے موقف کو غلط قرار دیا جا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ متعدد سیکرٹری اور وزرا لکڑی کی غیر قانونی کٹائی میں ملوث ہیں۔ جس کی واضح مثال چند ماہ قبل قیمتی لکڑی سے بھرے ٹرک ہیں جو ایک وزیر کی ایماء پر بحریہ ٹاون لے جائے جا رہے تھا پکڑے گئے اور بعد میں ان ٹرکوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ایک مقامی شہری محمد عادل کا کہنا ہے کہ مقامی شہریوں کی جنگلات کے ساتھ لگاو کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی نیلم کے نوجوانوں نے مل کر تحفظ جنگلات کمیٹی بنا رکھی ہے جس کا مقصد غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔
ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق جنگلات میں آگ بھی ٹھیکیداروں اور محکمہ کے ملازمین کی ملی بھگت سے لگائی جاتی ہے ۔تاکہ آگ کے باعث متاثر ہونے والی لکڑی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ تاہم بہت مقامات پر یہ آگ مقامی لوگوں کی جانب سے بھی لگائی جاتی ہے تاکہ مویشیوں کے لیے اچھا چارہ مل سکے۔
اس حوالے سے جب چیف کنزرویٹر فارسٹ سردار افتخار سے بات کی گئی تو انہوں نے بتا یاکہ گزشتہ ایک سال کے دوران ستر ہزار ایکٹر رقبے پر پودے لگائے گئے۔ جبکہ قدرتی طور پر جہاں پودے اگتے ہیں وہاں ایک لاکھ پچیس ہزار ایکٹر رقبے کو محفوظ کیا گیا۔قدرتی آفات کے نتیجے میں متاثر ہونے والے جنگلات کی سائل کنزویشن کے لیے وسائل کی کمی کی وجہ سے چند سال صرف تین فیصد ہی کام کیا جا سکا ہے۔
سردار افتخار کا کہنا ہے کہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں کل رقبے کا 27فیصد جنگلات کا ہونا ضروری ہے تاہم آزاد کشمیر میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر جنگلات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے جن میں لائن آف کنٹرول پر آنڈین آرمی کی جانب سے فائرنگ ،بڑھتی ہوئی آبادی ،قدرتی آفات اور غیر قانونی کٹائی سر فہرست ہیں ۔
جنگلات کی رقبے میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے بڑے پیمانے پر ریکارڈ میں رد و بدل کر کے جنگلات کی زمین کو پرائیوٹ جنگلات بنایا گیا ہے با اثر لوگوں نے حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے پرائیوٹ جنگلات کے نام پر بڑے پیمانے پر جنگل کاٹ کر فروخت کئے ہیں اور کئے جا رہے کی حالانکہ 1947 کے وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چند ایک پرائیوٹ جنگلات تھے جن میں دیودار کے درختوں پر مشتمل جنگلات نا ہونے کے برابر پرائیوٹ تھے تقسیم کے بعد ہونے والے بندو بست اور ڈمارکیشن میں بڑی پیمانے پر رد بدل کیا گیا اس حوالے سے جنگلات ،ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سالوں سے کام کرنے والے صحافی امیرالدین مغل کہتے ہیں پرائیوٹ جنگلات کے نام سے جہاں جنگلات کے رقبے کو ہڑپ کیا گیا ہے وہیں وادی نیلم سمیت دیگر علاقے جہاں سیاحت ترقی کررہی ہے ان علاقوں جنگلات کی زمینوں پر با اثر افراد اداروں کی جانب سے قبضہ کرکے گیسٹ ہاؤس ریسٹ ہاؤس سمیت دیگر تعمیرات کیجا رہی ہیں اور عمارات میں استعمال ہونے والی لکڑ میں اسی فیصد لکڑ جنگل سے غیر قانونی طور پر کاٹ کر استعمال کیجا رہی ہے پہلے مقامی لوگ گھروں میں بالن کے طور پر لکڑ جلاتے تھے اب بالن کا استعمال نئے بننے والے ہوٹلوں گیسٹ ہاؤس میں بھی بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے جس کا اثر جنگلات پر درجنوں کی کٹائی کی صورت میں نکلتا ہے۔
یوں تو پاکستانی کشمیر میں جنگلات کے لیے بنائے گے1930 کے قوانین کے مطابق درخت کی کٹائی پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ اس قانون کے مطابق جس جرمانے کا تعین کیا گیا تھا وہ انتہائی کم تھا۔اس قانون میں2017 میں ترمیم کی گئی تھی اور یوں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی پر سزائیں مزید سخت کی گئیں ہیں ۔مگر اس قانون پر عملدرآمد محض ایک خواب ہے جو پورا ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی ایک واضح مثال 2019 سے 2023تک جنگلات کی گئی غیر قانونی کٹائی میں اضافہ ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بڑے پیمانے پر جنگلات کو نقصان پہنچا ۔جنگلات کی لکڑی کو محکمہ جنگلات کے آفیسرز کی مدد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کو ملانے والے پوائنٹ کوہالہ اور برار کوٹ کے راستے اسلام آباد ،راولپنڈی سمیت دیگر شہروں میں اسمگلنگ کی جاتی ہے ۔متعدد بار لکڑی کو ضبط کیا گیا. مگر اس پر مزید کوئی کاروائی نہیں کہ گئی. کیونکہ لکڑی کی سمگلنگ میں ریاست کا با اثر طبقہ ملوث ہوتا ہے۔
سبز درختوں کی کٹائی قانونی طور پر جرم ہے مگر باوجود اس کے ٹمبر مافیا کے ساتھ ساتھ مقامی شہری بھی لکڑی کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔اس غیر قانونی کام پر کتنے ملازموں اور کتنے ایسے افراد جو اسمگلنگ میں ملوث تھے ان کو سزا ہوئی یہ اسی صورت دیکھا جا سکتا ہے ۔ محکمہ اس حوالے سے اپنے سرکاری اعدادو شمار فراہم نہیں کرتا محکمہ کے سیکرٹری نے بھی اپنی گفتگو کے دوران اس سوال کے باوجود اس طرح کی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جس سے یہ پتہ لگایا جا سکتا کہ ذمہ داران کو کب اور کیا سزا دی گئی ۔
جہاں تک جرمانے کا تعلق ہے تو اس میں بھی محکمہ کی ملی بھگت پائی جاتی ہے محکمہ کے سکرٹری دفتر سے لے کر چیف کنزرویٹر فارسٹ تک کے دفتروں میں آر ٹی آئی ریکوسٹ بھیجے ہوئے ایک ماہ دس دن گزر جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔اس دوران محکمہ کے دفتروں میں متعدد بار چکر لگائے اور کہیں فون کالز کیں مگر کوئی جواب نہیں دیاگیا جبکہ چیف کنزروئٹرفارسٹ اسد محمود کے پی ایس نے یہ میسج دیا کہ اگر آپ کو معلومات چاہیے تو چیف صاحب کا حکم ہے کہ آپ ہمارے ساتھ پہلے اسٹام کریں کے اس معلومات کو محکمہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا ۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم انوارالحق کی جانب سے گزشتہ ماہ محکمے کو ہدایات جاری کیں گیئں کہ وہ جنگلات میں قیمتی لکڑی کے کٹاو پر مکمل پابندی کو یقینی بنائیں ۔جس پر محکمہ جنگلات جن کا سرکاری ملازمت کے بعد جنگلات ہی بڑا کاروبار ہے انہوں نے ایک غلط نوٹیفیکشن جاری کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وزیر اعظم نے مقامی لوگوں کیلئے بالن پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ جس کے خلاف مقامی شہریوں نے احتجاج کیا تو وزیر اعظم نے محکمہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکشن کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری جنگلات کو ہدایت کی کہ نوٹیفیکشن واپس لیتے ہوئے یہ بات واضح کی جائے کہ پابندی مقامی لوگوں کی جنگل سے گری پڑی لکڑ پر مشتمل بالن پر نہیں ہے
جس طرح گزشتہ چند سال سے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ جاری ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اگلے چند سال کے دوران جنگلات تشویشناک حد تک سکڑ خاتمے کے قریب پہنچ جائیں گے جس سے خطہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔