معلومات تک رسائی کی عدم فراہمی سے اظہار رائے پہ قد غن

شئر کریں

تحریر کرن قاسم

گلگت بلتستان میں صحافیوں کو معلومات تک رسائی حاصل کرنے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کا قانون وجود میں نہ آنے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ھے خطے کے اندر صحافیوں کو کسی ایشو پر اداروں سے معلومات حاصل کرنے کے لئے کئی کئی سال لگ جاتے ہیں وہ بھی زرائع لکھنے کی شرط پر معلومات حاصل ہوتیں ہیں سٹوری اداروں کے حق میں نہ ہو تو صحافیوں کے خلاف عدالتوں کا رخ کیا جاتا ہےزرائع کے مکر جانے کے بعد صحافیوں کو دھمکیاں الگ سی ملتی جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض صحیح طریقے سے نبھانا دن بہ دن مشکل ہوتا جارہا ہے

۔ روزنامہ پناہ اخبار گلگت بلتستان کے صحافی فہیم آختر لون جو گزشتہ 10 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں نے بتایا کہ وہ ایک سٹوری معلومات لینے سرکاری میں گئےتو ان سے کہا گیا کہ معلومات بھی مانگ رہے ہو اور بدمعاشی بھی کر رہے ہیں آرٹی آئی کے تحت سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول مانگے جانے پر افیسران کا رویہ انتہائی تلخ ہوجاتا ہے ۔

فہیم اختر نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں معلومات تک رسائی کا کوئی قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔جس سے اظہار رائے پر قد غن لگ جاتی ہے اور ہم سچ عوام کے سامنے لانے سے قاصر ہو جاتے ہیںگلگت بلتستان میں صرف فہیم اختر کو ہی نہیں فہیم اختر جیسے ورکنگ صحافیوں کو معلومات تک رسائی میں کافی دقت کا سامنا ہوتا ہے گلگت شہر میں 72 کے قریب صحافی ہیں جو مختلف اخبارات ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں ہر صحافی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی نئی خبر بریک کرے جس سے معاشرے کی اصلاح ہو اور عوام میں شعور اجاگر ہو۔

روزنامہ وطین گلگت بلتستان کے بیورو چیف مہتاب الرحمن نے کہا کہ میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ میں روزانہ کوئی ایسی خبر بریک کروں جو معمول سے ہٹ کہ ہو اس کے لئے میں نے گلگت بلتستان میں سیکرٹریز کے زیر استعمال کتنی تعدادی سرکاری گاڑیاں ہیں تعداد معلوم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی مگر 2 سال سے ابھی تک مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیئے گئے اور متعقلہ ادارے کا کہنا تھا ہم اپ کو کس قانون کے تحت معلومات فراہم کریں اگر ہم میڈیا کو معلومات فراہم کرے تو اس صورت میں ہماری نوکری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

گلگت بلتستان میں 2009 کے ایک صدراتی آڈر کے تحت یہاں پر ایک نیم صوبائی حکومت کا وجود عمل میں لایا گیا اور قانون ساز اسمبلی کا اختیارات منتقل کر لیئے گئے مگر ان 13 سالوں میں معلومات تک رسائی کے قانون کو اب تک اسمبلی سے پاس نہیں کیا گیا واضح رہے کہ 2009 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت کا درجہ دیکر صوبائی طرز حکومت کے تحت جزوی طور پر اختیارات منتقل کئے گئے جس کی روشنی میں پہلی بار گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا اور الیکشن کے مرحلے سے گزر کر سید مہدی شاہ گلگت بلتستان اسمبلی کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ صدارتی آرڈیننس 2009 سے قبل گلگت بلتستان جو اس وقت کا نام شمالی علاقہ جات تھا میں ایک چیف ایکزیکٹیو قانون ساز اسمبلی کا سربراہ ہوا کرتا تھا مذکورہ صدارتی آرڈیننس کا حوالہ دینے کا مقصد گلگت بلتستان کو 2009 میں صوبائی طرز اختیارات منتقل ہونے کے باوجود ملک کے دیگر صوبوں کے صحافیوں کی طرح ان علاقوں کے صحافیوں کو معلومات تک رسائی و دیگر صوبائی طرز جیسے سہولیات میسر نہیں ہیں

روزنامہ ہمالیہ ٹوڈے کے صحافی وقار احمد راجپوت نے بتایا کہ ہمارے پاس لکھنے کے لئے بہت کچھ موضوعات ہیں لیکن ہمیں اداروں کے زمہ داران مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کر رہے ہوتے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریاں بھرپور انداز میں انجام دینے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا وقار راجپوت نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں معلومات تک رسائی کا قانون لاگو نہ ہونے کی وجہ سے نہ اداروں کا مثبت کردار اور نہ ہی کرپشن میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لا سکتے۔ اس دوران ویمن ٹی وی سے منسلک خاتون صحافی شرین کریم نے بتایا کہ میں نے ایک سٹوری کے لئے معلومات لینے متعلقہ ادارے میں چلی گئی جہاں سے مجھے صاف صاف یہ بتا کر واپس کر دیا کہ ہم کسی صحافی کو اندرونی معاملات بابت معلومات فراہم کرنے کے مجاز نہیں لہذا جو دل میں آتا لکھیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا خلاف خبر آنے کی صورت میں خود عدالتوں کا چکر کاٹتی رہو گی۔

روزنامہ بانگ سحر کے صحافی جہانگیر ناجی نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں اس طرح صحافتی خدمات انجام دینے سے گھر میں خاموش بیٹھنا ہی بہتر ھے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں جاؤ تو وہاں کے زمہ داران معلومات فراہم کرنے سے ڈرتے ہیں یا پھر کلرک، ڈائریکٹر کے پاس بھیجتا پھر ڈائریکٹر سکریٹری کے پاس اسی طرح سکریٹری صحافیوں کو ایک درخواست لکھ کر جمع کروانے کا قانون بتا دیتا ھے یوں ایک عرصہ اس میں لگنے کے بعد کلرک ، ڈپٹی ڈائریکٹر ، ڈائریکٹر اور متعلقہ ادارے کے سکریٹری کے درمیان درخواست گھوم پھر کر غائب ہو جاتی ھے پھر تلاش کا بہانہ بنا کر کم معاوضوں پر کام کرنے والے صحافیوں کو اس مشن سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جاتا ھے جہانگیر ناجی نے اپنی اشاعت شدہ سٹوری کا ایک حوالہ دیکر بتایا کہ میں نے 2015 میں سیاحوں ودیگر سفری افراد کے لئے عید کے دنوں ہنزہ جیسے اہم سیاحتی مقام پر سیاحوں کے لئے دو دن تک مالکان کی جانب سے کھانے پینے کے ہوٹلز کو بند رکھنے اور انھیں کھانے پینے کے لئے 100 کلو میٹر سفر طے کر کے گلگت شہر آکر کھانا کھانے پہ مجبور کرنے کے حوالے سے ایک سٹوری ہنزہ ڈی سی اے سی کو اس کا زمہ دار ٹھہراتے ہوئے چلائی تھی جس کا کیس میرے اوپر 7 سال تک چلتا رہا اور اس دوران سو کلومیٹر سفر طے کر کے گلگت سے وکیلوں کے ہمراہ ہنزہ کی عدالتوں میں اپنی کیس کی پیروی کرتا رہا اب آپ بتائیں کہ ایک صحافی ان مشکل حالات میں اس خطے کے اندر موجود محکمانہ برائیوں کو ختم کرنے میں اپنا خوبصورت کردار کیسے ادا کر سکتا ھے۔

گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خالد حسین کہتے ہیں کہ ہم نے اس خطے کے صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے اور پیشہ ورانہ فرائض میں آسانیاں پیدا کرنے ملک کے دیگر علاقوں میں لاگو قانون آرٹیکل A-19 پاس کرانے کے لئے بہت جدوجہد کی اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے حکومتوں کی تبدیلیاں باعث رکاوٹ بنی اور اب بھی ہماری کوششیں جاری ہیں بہت جلد گلگت بلتستان کے صحافی اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے قانون میں اپنے فرائض انجام دینگے۔ جب رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ آر ٹی آئی کا قانون ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہے جس سے وہاں کے صحافیوں کو معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی پیدا ہو رہی ھے ہم نے اپنے دور میں اس قانون کو لانے میں 90 فیصد کام مکمل کیا ہوا تھا حکومت کا پریڈ پورا ہوا ہمارے بعد آنے والی صوبائی حکومت نے اس پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے مزکورہ قانون التوا کا شکار ہوئی کیونکہ اس خطے اس قانون کے آنے سے صحافیوں کو مستند معلومات فراہم ہونگے اور اس سے میڈیا کے ذریعے اداروں کی صورتحال سے عوام کو بھی باخبر رہنے کا موقع فراہم ہوگا اور ادارے بھی صحیح سمت اپنا کام جاری رکھنے مجبور ہونگے جس سے کرپشن میں بھی کافی حد تک کمی آئے گی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن گلگت بلتستان نے اس حوالے سے بتایا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون اسمبلی سے لانے میں صوبائی حکومت سنجیدہ ھے اور اس حوالے سے جو دستاویزات حوالہ جات مانگے گئے تھے وہ ہم نے محکمہ اطلاعات کے پلیٹ فارم سے پہلے ہی فراہم کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم نے اس سٹوری کا حصہ بنانے اور آر ٹی آئی قانون کا وجود گلگت بلتستان میں ابھی تک نہ ہونے کی وجوہات جاننے کیلئے کسی وفاقی اطلاعات کے زمہ دار یا وزیر سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی ہماری کال سننے کو تیار نہیں تھا۔
گلگت بلتستان میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے قانون کے حوالے سے جب سکریٹری اطلاعات سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ہمیں محکمہ اطلاعات کے دفتر سے مندرجہ ذیل معلومات فراہم کرنے میں مدد کی جس کے مطابق اطلاعات تک رسائی کا قانون اور معلومات تک رسائی کا قانون بتا رہا ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19-A کے مطابق ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا جس کے تحت ضابطے اور معقول پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
آئین پاکستان کی روشنی میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ معلومات تک صحیح طریقے سے رسائی حاصل کر سکے۔ اس حق کے تحت پاکستانی شہری سرکاری اداروں سے معلومات کی فراہمی کے لئے درخواست کر سکتے ہیں اور اس درخواست کے جواب میں متعلقہ محکمہ معلومات کی فراہمی کا پابند ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان نے بھی سرکاری اداروں کے بارے میں شہریوں کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرنے کے لیے اکتوبر 2017 میں اس پر قانون سازی کی گئی اور باقاعدہ ایک مجاز ادارے (پاکستان انفارمیشن کمیشن www.rti.gov.pk ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری ادارے کے بارے میں کوئی سوال ہو تو وہ متعلقہ ادارے سے ایک درخواست کے ذریعے پوچھ سکے گا۔ اگر اسے 10 دن کے اندر جواب نہیں دیا جاتا تو وہ 30 دن کے اندر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس پر کمیشن 60 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی سطح پر اس قانون سازی سے پیشتر 2013 میں Right to Information Act کے نام سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس ایکٹ کے زریعے شہریوں کو سرکاری اداروں کے بارے میں معلومات کی آسان فراہمی کے لئے قانون منظور کیا جا چکا تھا۔

صوبائی سطح پر بھی ایک مکمل ادارہ انفارمیشن کمیشن کے نام سے فعال ہے جو کہ شہریوں کو درکار معلومات تک رسائی کو ممکن بناتا ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے اداروں کا بنیادی مقصد آئین پاکستان کی روشنی میں شہریوں کو اطلاعات و معلومات تک صحیح رسائی کا یقینی بنانا ہے۔ وفاق اور صوبائی سطح پر موجود ادارے ایک ہی طرح سے کام کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں قائم اس خصوصی کمیشن کے تین ارکان ہیں، جو چیف انفارمیشن کمشنر کے ساتھ دو اراکین ادارے کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں۔خیبر پختونخواہ کے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری اداروں کے زمہ داران کے لئے لازم ہے کہ وہ درخواست کی وصولی کے کم از کم 10 دن اور زیادہ سے زیادہ 20 دن کے اندر متعلقہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے۔

عدم فراہمی کی صورت میں درخواست گزار متعلقہ محکمے کے خلاف صوبائی انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کر سکتا ہے۔ شکایات کے بروقت اندراج کے نام سے موجود ہے۔ ویب سائٹ پر شکایات کے اندارج کے بعدیہ ادارہ داد رسی کے لئے مختلف اقدامات کرنے کا مجاز ہے۔ کمیشن درج کی گئی شکایات پر 60 دن کے اندر جواب دینے کا پابند ہے۔ شکایات کی روشنی میں کمیشن سرکاری اداروں کو معلومات کی فراہمی کا حکم جاری کر سکتا ہے اور عدم تعمیل کی صورت میں متعلقہ ادارے کے پبلک انفارمیشن آفیسر پر 250 روپے سے لیکر 25 ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد کر سکتا ہے۔ کمیشن کو متعلقہ آفیسر کو بلوانے کے لئے سمن کے بھی جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

قانون کے تحت انفارمیشن کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ سرکاری اداروں سے دستاویزات طلب کرے اور ان کی جانچ پڑتال کر سکے۔ اس قانون کے تحت کچھ معلومات کو استثنیٰ حاصل ہے جن میں ایسی معلومات شامل ہیں جو پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کریں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی جرم کا باعث بنتی ہوں یا کسی انکوائری کی تفتیش کو متاثر کرتی ہوں یہ معلومات اگر کسی مخبر کی نشاندہی کرتی ہوں۔ ملک کی سکیورٹی یا کسی کی نجی معلومات کو بھی استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایسی معاشی معلومات جن کے قبل از وقت افشا سے نقصان کا خدشہ ہو۔ پاکستان کا دفاع، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اثر پذیری کو نقصان کا خدشہ ہو تو وہ معلومات بھی نہیں دی جا سکتیں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی فرد کی آزادی، صحت اور تحفظ کو خطرے میں ڈالتی ہوں۔ زیر سماعت کیس متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔

ملک کے دیگر صوبوں میں بھی یہ اس طرز کی قانون سازی کی جا چکی ہے اور مکمل طور پر فعال ادارے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں بھی رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون 2013 سے نافذ العمل ہے اور خصوصی انفارمیشن مکمل طور پر فعال ہے۔ بلوچستان میں صوبائی سطح پر یہ قانون فروری 2021 میں منظور ہوا تھا۔، سندھ میں اس قانون کی منظوری 2016 میں دی جاچکی ہے اور ایک با اختیار کمیشن کام کر رہا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں صوبائی اطلاعات کا محکمہ کا قیام جولائی 2013 میں عمل آیا تا حال محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر صوبوں کی طرح اطلاعات فراہم کرنے کا اختیار فعال کردار میں نہیں ھے جبکہ سابق وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ خان سے معلومات تک رسائی میں مشکلات اور اداروں کی طرف سے صحافیوں کے ساتھ معلومات فراہم کرنے میں عدم تعاون حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ہم اس حوالے سے قانون صوبائی اسمبلی سے پاس کرنے کا پیپر ورک آخری مراحل میں تھا کہ اچانک حکومت تبدیل ہو گئی جس کی وجہ سے یہ قانون التوا کا شکار ہو کر رہ گیا تاہم نئی صوبائی حکومت میں مذکور بل ضرور پاس ہوگا جس سے صحافیوں کو معلومات تک رسائی میں درپیش مشکلات دور ہونگے۔


شئر کریں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *