|

سفر نامہ دو آوارہ گرد میرپور سے وادی کشن گنگا۔۔قسط 3

شئر کریں

تحریر:شعیب علی جموال اینڈ ساجد منان گُریزیؔ

قسط نمبر ـــــــ 3
ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے کسی بھی صوبے میں چاہیے وہ ہندوستان زیر انتظام ہو پاکستان زیر انتظام ہو یا چین زیر انتظام ہو میں قدرتی وسائل آبی وسائل معدنیات ۔ جنگلات اور خاص کر تاریخی مقامات کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے خاص کا ریاست کا 85806 مربع میل میں سے 4144 مربع میل جو آزاد کشمیر کہلاتا ہے وہ بہت بری طرح لوٹ مار کا شکار ہوا یہاں پر تاریخی مقامات کو تباہ و برباد کیا گیا اور محکمہ آثار قدیمہ اس میں برابر کا شریک ہے ۔
منڈھول دھرم شالہ بھی ان میں سے ایک ایسا ہی تاریخی اور مذہبی مقام ہے جو وقت کی ستم ظریفی کا شکار ہوا ۔
اس کی چار دیواری کے اندر لوگ کاشت کاری کرتے ہیں جو سراسر ایک جہالت کا مقام ہے اس کی دیواروں پر درخت ہیں جن کی جڑیں اس شاہکار کو پاش پاش کر رہی ہیں اور دن بدن دیواروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں ۔
سب سے اہم بات کسی خزانے کے متلاشی چور نے اس کے درمیان کھدائی کر کے یہاں سے کچھ نکالا یا نہیں نکالا مگر اس کھدائی سے اس شاہکار کے گرنے کے قوی امکانات ہیں ۔
درخت زیادہ ہونے اور دیواریں کمزور ہونے کی وجہ سے ہم اس کی کوئی خاطر خواہ پیمائش نہیں کر سکے لیکن یہ شاردہ یونیورسٹی یا پیتھ سے قدیم بھی ہے اور اس سے خوبصورت طرز تعمیر بھی ۔
اب محکمہ آثار قدیمہ کا کام ہے اس کی حفاظت کرنا ۔
کچھ لوگ اسے دیرہ بھی کہتے ہیں ۔
“دھرم شالہ ، دیرہ، مندر ، یا یونیورسٹی جو بھی کہیں مگر
ہماری تحقیق اور ریسرچ سے یہی نتیجہ اخذ ہوا کہ یہ ایک قدیم درسگاہ و مذہبی مقام رہا ہے ۔
جسے ناگ مت، بدھ مت ، یا کنشکہ عہد یعنی ( 75 ء تا124ء) میں اسی وقت تعمیر کیا گیا جب بدھ مت کی تعمیر کردہ قدیم درسگاہ جو ( گومپا ۔ سٹوپہ ) کے نام سے مشہور تھی تعمیر ہوتی رہیں ۔
بدھ مذہب کا ایک پیرو کار جس کا نام کنشک یا کنشکہ تھا نے جب اس علاقے کو فتح کیا تو اس دور دراز پھیلے علاقے کو اپنا مسکن سمجھا ۔
کافی عمارتوں کے علاوہ یہاں کنشک پورہ کے نام سے ایک شہر بھی آباد کروایا۔
اس دور میں اس کے فتح کردہ علاقے کی سرحدیں کابل سے لے کر پاٹلی پتر تک پھیلی تھیں اور باقاعدہ اس کی سلطنت میں شمار تھیں اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تاریخ 18 سو سے 2 ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ پرانی ہو سکتی ہے۔
منڈھول کے مقامی لوگ ایسے مندر، قلعے یا دیرے کے نام سے جانتے ہیں
اور محکمہ آثار قدیمہ والے بھی اسے فورٹ آف ہجیرہ کہتے ہیں
وقت کی ستم ظریفی کا شکار یہ شاہکار ہزاروں سال سے اقوام کو اخوت بھائی چارے مساوات امن کا درس دیتا آ رہا ہے مگر یہاں سے علم حاصل کرنے والوں کی اولادیں اس قدیم دھرم شالہ کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکیں ۔
ایسے ملتے جلتے بہت سے قدیمی مقامات ہیں جن میں نیلم شاردہ پیتھ ، راولاکوٹ میں المشہور گرودوارہ ۔ کپواڑہ کے علاوہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے علاوہ کافی ممالک میں ایسے آثار قدیمہ موجود ہیں ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باقی دنیا کی نسبت اہل جموں کشمیر بھی علم کی دنیا میں ایک مثال تھے۔
اشوک اعظم کے جانشینوں سے لے کر للتادتیہ ۔ ورمن۔ اور زین العابدین بڈ شاہ ۔ یعقوب شاہ چک بھی نے بھی تہذیب و تمدن علم و ادب ثقافت و فلسفہ کا ایک عظیم عروج انہیں درسگاہوں سے ہوا ہے۔
مہاتما بدھ سے لے کر شرف الدین شاہ المعروف بلبل شاہ اور سید علی ہمدانی تک ہر مذہب کو عروج کی بلندیوں پر پہنچتے دیکھا ہے۔
مگر آج یہ عجوبے یہ شاہکار صرف چند ایک دیوانے ہی دیکھنے جاتے ہیں ۔
دنیا کیا جانے ان درسگاہوں نے کتنے لوگ ایسے تیار کیئے ہوں گے جو انسانیت کے لیے کیا کیا کر گزرے ہوں گے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جو جہالت کے ہزار درجے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔
نوٹ ۔
اس میں استعمال ہونے والا پتھر اور شاردہ پیتھ والا پتھر اب بوسیدہ ہو رہا ے اور یہ پتھر بھی کافی وزنی ہیں قریب 1 پتھر 10 سے 20 من اور کچھ 1 سے 2 ٹن تک وزنی بھی ہیں اس پتھر کو ایک خاص قسم کے سفید پتھر کو پیگلا کر کیمیکل بنایا گیا اور اسے اس ترتیب سے جوڑا گیا کہ یہ ایک ہی بڑا پتھر جسے کاٹ کا یہ عجوبہ بنایا گیا ظاہر ہوتا ہے اس کے کچھ فوٹو ایڈ کر رہا ہوں جو 2 مختلف دوروں میں بنائے ۔ انسانی عقل اس کی طرز تعمیر دیکھ کر دھنگ رہ جاتی ہے ۔
اس مقام کے 3 مختصر وزٹ سے کافی کچھ لکھنے کا موقع ملا ہم نے یہاں کچھ عکس بندی کی اور واپس موٹر سائیکل پر سوار ہو کر منڈھول سے راولاکوٹ براستہ ہجیرہ کھائیگالہ روانہ ہو گئے.

…………..جاری ہے


شئر کریں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *