اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط پنجم)

شئر کریں

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

اسلامک بینکنگ کے ناقدین میں سے ایک طبقہ کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اسلامی طریقہ کار کے مطابق بینکنگ یا وسیع تر مالیاتی خدمات کا نظام ممکن ہی نہیں۔ اگر ان کا یہ موقف درست ہے تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ شریعت کسی فرد کو اس چیز کا مکلف نہیں بناتی جو ممکن ہی نہ ہو۔ ان احباب کو چاہیے کہ ایک قدم مزید آگے بڑھ کر یہ فتوی جاری کر دیں کہ جب تک پاکستان میں نظام خلافت رائج نہیں ہوتا، اس وقت تک سودی بینکاری جائز تصور ہو گی۔ اگر ایسا فتوی نہیں دیا جا سکتا تو پھر لوگوں کو حرام مالیاتی نظام سے بچانے کی کوشش کرنا فرض کفایہ تصور ہو گا، اور وہ تمام لوگ جو اس معاملے میں کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ مسؤل ہوں گے۔ بینکنگ کو کلی طور پر سودی قرار دے دینا اور پھر تمام امت مسلمہ کو اسی سودی بینکنگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا، یقینا روز قیامت ان لوگوں کی جواب طلبی کا سبب بنے گا جو اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کے قابل ہیں۔

ناقدین کے دوسرے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو مروجہ اسلامی بینکاری میں استعمال ہونے والے مالی معاملات کی تھوڑی یا زیادہ تفہیم رکھتے ہیں اور مروجہ مالی معاملات پر تنقید کے لیے ان معاملات کی شرائط کی پابندی نہ کئے جانے کو بنیاد بناتے ہیں۔ مثلا مشارکہ متناقصہ diminishing musharika کو آج کل ہاؤس فائنانسگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشارکہ متناقصہ ایسا معاہدہ ہے، جس میں بینک اور کسٹمر مل کر ایک پراپرٹی خریدتے ہیں ، جسے چھوٹے چھوٹے حصہ جات میں تقسیم کر لیا جاتا ہے۔ ہر مہینہ کسٹمر بینک سے کچھ حصہ خرید لیتا ہے اور آخرکار ساری ملکیت کسٹمر کے نام ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ اس دوران کسٹمر اپنے حصے کا تو حق ملکیت رکھتا ہے تاہم بینک کے حصہ کا کرایہ بینک کو ادا کرتا رہتا ہے۔

مشارکہ متناقصہ میں دو معاہدات بیک وقت شامل ہوتے ہیں ، یعنی مشارکہ اور اجارہ۔ ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاملہ کے اندر دو معاملہ جات کو جمع کرنے یعنی بیع فی بیعتین سے منع فرمایا ہے۔ میرے خیال میں اس حدیث کا درست مطلب نہیں لیا گیا۔ ایک نسبتا پیچیدہ معاہدہ جس میں مشارکہ اور اجارہ دونوں شامل ہیں، اس حدیث میں درج ممانعت کے مصداق نہیں، ، بلکہ ایک ایسے کنٹریکٹ سے منع کیا گیا، جس کی درستگی کا سبب ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔ مثلا ایک شخص نے مجھے ایک لاکھ روپے دینے ہیں، اور اس نے ایک تحریری معاہدہ اس سلسلہ میں لکھ کر دے رکھا ہے۔ اس کی طرف سے پیسے وصول ہونے سے پہلے میں اگر اس تحریر کو استعمال کر کے خریداری کر لوں تو یہ بیع فی بیعتین تصور ہوگی۔ ایک پیچیدہ میکینزم کی تشکیل جو عصر حاضر کے کسی مسئلہ کا حل پیش کرتا ہو، بیع فی بیعتین کا مصداق قرار دے کر رد نہیں کی جا سکتا۔ لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے اور میں فقہ کا ماہر نہیں ہوں، لئے مجھے اپنی رائے کی درستگی پر کوئی اصرار نہیں ، لیکن فرض کیجئے کہ مذکورہ اعتراض درست ہے، ایسی صورت میں اعتراض کو دور کر کے خامی سے پاک مشارکہ پر مبنی معاہدہ اصولی طور پر ممکن ہونا چاہئے۔ اب جو شخص مشارکہ متناقصہ کی مذکورہ بالا شکل پر معترض ہے اسے چاہئیے کہ صرف باتیں کرنے کی بجائے مشارکہ کی جو شکل اس کی دانست میں شرعی تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے، اس کی بنیاد پر مالیاتی پروڈکٹ تشکیل دے کر لوگوں کو حرام اور ناپسندیدہ معاملات میں الجھنے سے بچائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو صرف باتیں کرنا آپکو آپ کی اصل ذمہ داری سے مبرا نہیں کرتا۔

کسی کمپنی کے شیئرز خرید کر جب آپ اس کی ملکیت میں حصہ دار بنتے ہیں تو یہ معاملہ شریعت میں مذکور مضاربہ سے مشابہت رکھتا ہے، اور اگر آپ کے شیئر آپ کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل کروا دیتے ہیں تو یہی معاہدہ مشارکہ بھی بن جائے گا ۔ اگر یہ سرمایہ کاری کسی حلال کاروبار میں کی گئی ہو تو اس سے حاصل ہونے والا پرافٹ حلال تصور ہوگا۔ اس طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی لاکھوں کمپنیاں ہزاروں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرتی ہیں، لیکن ہمارے علماءاور کاروباری لوگ اس کو کاروباری شکل دینے سے قاصر ہیں، اور تاحال ہم نے مضاربہ کا نام صرف سکینڈل کے حوالے سے ہی سنا ہے۔
مضاربہ ایسا طریقہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے اسلامک بینک اپنے ڈیپازٹر کو حلال منافع دے سکتے ہیں۔ایسی سرمایہ کاری میں نفع بھی ممکن ہے اور نقصان بھی، اور اس منافع کا کائبور یا کسی دوسرے سودی بینچ مارک سے کوئی ربط نہیں ہوگا۔ لیکن مضاربہ کے زریعے شک و شبہ سے پاک منافع کی بجائے ایک اسلامک بینک اگر صرف مرابحہ کی بنیاد پر کاروبار کو ترجیح دے، اور اس مرابحہ میں بھی صرف کائبور کو بطور بینچ مارک استعمال کرے اور اگر تب بھی بینک کی اصل شرح منافع ٹریژری بل کے منافع سے مختلف ہو تو خود سے ہی رب المال کا شیئر تبدیل کر کے اس کے حصہ کو سودی بینچ مارک کے قریب ترین لایا جائے تو ظاہر ہے کہ دونوں بنیکنگ سسٹم میں فرق کرنے والی لکیر دھندلی ہو گی اور لوگ دونوں قسم کی سروسز میں فرق کو سمجھ نہیں پائیں گے۔

لیکن اب مسئلہ کا حل یہ نہیں کہ آپ صرف گلی کے کنارے کھڑے ہو کر تماشہ دیکھیں، بلکہ بحیثیت مسلمان آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ ان خامیوں سے مبرا مالیاتی نظام تشکیل دیں جو مضاربہ یا مرابحہ کی حالیہ پریکٹس میں آپ کو نظر آتی ہیں۔ اور اگر آپ اسلام کو ایک قابل عمل نظام حیات سمجھتے ہیں تو ایسے نظام کی تشکیل یقینا ممکن ہونی چاہیئے

مختصرا یہ کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف حرام کا فتوی لگا دینے سے ادا نہیں ہو جاتی، مسلمان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ خود کو اور دوسرے مسلمانوں کو حلال زرائع کے مطابق زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرے، اور اس سلسلہ میں ہر وہ شخص مسؤل ہے، جو اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

مصنف کے بارے میں

Atiq ur Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *