اسلامی بنکاری میری نظر میں (قسط سوئم)
تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن
پاکستان میں معیشت کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا اور ان بنیادوں پر معاشی نظام کی تشکیل کے لئے متعددتجاویز سامنے آئیں اور تجربات کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود تا حال معیشت کو اسلامی بنیادوں پر ترتیب نہیں دیا جا سکا اور معاشی نظام روایتی بینکنگ کے تحت ہی چل رہا ہے جو سود پر مبنی ہے ۔ شریعت اسلامی میں سود غالبا سب سے بڑا مالیاتی جرم ہے جسے قران مجید نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے، لیکن تاحال یہی نظام ملک میں مروج ہے۔ اسلامی بینکنگ کے علمبردار اس بات پر خوش ہیں کہ ان کا تشکیل کردہ متبادل نظام روایتی بینکنگ کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک حقیقی شرعی متبادل میسر آنے کے بعد اسلامی شریعت پر یقین رکھنے والا فرد روایتی بینکاری میں شامل نہیں ہو سکتا، اس لئے روایتی بینکاری کو یکسر ختم ہوجانا چاہئے۔ تاحال عوام کی غالب اکثریت روایتی بینکاری پر ہی انحصار کر رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت نے موجودہ اسلامی بینکاری نظام کو متبادل کے طور پر قبول نہیں کیا اور اس کی شریعت سے ہم آہنگی کے بارے میں وسیع پیمانے پر شکوک موجود ہیں۔
پاکستان میں دینی مدارس کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں طلباءتعلیم حاصل کر کے دین سے متعلقہ امور میں امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی بنیادوں پر معاشی نظام کی تشکیل میں تاخیر ناقابل فہم ہے۔ علماء کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے اور کیا ہونا چاہئے، اس مضمون میں اس پر بحث کی گئی ہے۔
میرے نزدیک اسلامی نظام معیشت کی تشکیل میں پہلی رکاوٹ علماء اور مذہبی اسکالرز کی اسلامی معیشت کے بارے میں ناقص معلومات اور مالیتی امور میں دلچسپی لینے سے اعراض ہے۔ پاکستانی مدارس سے فارغ التحصیل علماء اپنی تبحر علمی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں لیکن بدقسمتی سے ان علماء کی مالیاتی امور میں تفہیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء کی بڑی تعداد کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے اور ایسے علماء کم علمی کے باوجود فتوی نویسی سے گریز نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک معروف عالم دین جو ایک ملک گیر مذہبی جماعت کے صف اول کے رہنماؤں میں شامل ہیں، ان کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ فرما رہے تھے کہ مروجہ اسلامک بینکنگ اور سود پر مبنی بینکنگ میں صرف نام ہی کا فرق ہے، اور کوئی حقیقی فرق موجود نہیں ہے۔ میں نے موصوف سے رابطہ کیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا اپ کو یہ معلوم ہے کہ مروجہ اسلامک بینکنگ میں کون سے مالیاتی معاہدات کے ذریعے کاروبار چلایا جا رہا ہے؟ جواب میں انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیاجس پر میں نے یہ شکوہ کیا کہ آپ بغیر مکمل معلومات فتوی نویسی کیوں کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے ناراضگی کا اظہار فرمایا جس پر خاموش ہونا پڑا۔ عام علماء بھی فتوی نویسی میں عجلت سے کام لیتے ہیں جبکہ انہیں مکمل معلومات نہیں ہوتی۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں اگر علمائے کرام مکمل تفہیم کے بعد مروجہ اسلامک بینکنگ پر تنقید کریں، لیکن ناقص معلومات یا معلومات نہ ہونے کے باوجود فتوی نویسی انتہائی غیر محتاط عمل ہے، جو علماء کے شایان شان نہیں۔
کچھ عرصہ قبل میں نے آزاد کشمیر یونیورسٹی میں اپنے چند طلباء کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ ایک سوال نامے کے ذریعے مظفراباد اور اس کے گردو نواح میں موجود علماء کی مالیاتی امور کے بارے میں تفہیم کا جائزہ لیں۔ اس سوال نامے میں چند سادہ مالیاتی معاہدات کی تفصیل درج تھی اور علماء سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ ان معاہدات کے فقہی نام اور ان کے بارے میں شرعی حکم کے بارے میں تحریر کریں۔ 80 فیصد علماء نے سوال نامہ قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا اور یہ کہا کہ اس بارے میں ان کی معلومات ناقص ہیں، چند فیصد علماء نے موقع پر سوال نامے کے جواب دیے جب کہ بقیہ چند فیصد نے سوال نامے کا جواب دینے کے لیے وقت مانگا۔ جن علماء نے سوال نامے کا جواب دینے کے لیے وقت مانگا ، ان میں سے بھی ایک معقول تعداد نے سوال نامے مکمل کیے بغیر واپس کر دیے، جبکہ محض چند فیصد نے جوابات دیے۔ سوال نامے سے حاصل شدہ جوابات کا خلاصہ منسلکہ درجہ ذیل جدول میں موجود ہے۔
اس جدول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چند علماء جنہوں نے سوال نامے کا جواب دینے کی حامی بھری ، ان میں سے بھی بڑی تعداد کی معلومات ناقص تھیں۔ مثال کے طور پر بیع الکالی بالکالی کی درست شناخت کرنے والے علما کا تناسب محض 19فیصد تھا اور وقف کی درست شناخت کرنے والے علما کا تناسب محض 23 فیصد تھا۔ اہل تشیع کے مدارس سے وابستہ علما کی مالیاتی تفہیم سب سے ناقص تھی، اور متعدد مالیاتی معاہدات کو وفاق المدارس الشیعہ سے وابستہ کوئی بھی عالم شناخت نہیں کر پایا۔ وفاق المدارس العربیہ سے متعلقہ علما نے دیگر علما کی نسبت بہتر تفہیم کا مظاہرہ کیا ، لیکن ان میں بھی بڑی تعداد متعدد مالی معاہدات کی درست شناخت نہیں کر پائی۔
مذکورہ سوال نامہ ان مالیاتی معاہدات پر مبنی تھا جن کا روایتی فقہ المالیات میں بار بار تذکرہ موجود ہے، جبکہ نو تشکیل شدہ مالیاتی معاہدات مثلا مشارکہ متناقصہ کے بارے میں علماء کی معلومات اس سے بھی کم درجے کی تھیں۔ مذکورہ بالا سوال نامہ مظفراباد اور گرد و نواح میں واقع مدارس میں تقسیم کیا گیا تھا، اس لئے یہ ملک بھر کے علماء کی تفہیم کو درست طور پر ظاہر نہیں کرتا، لیکن قرائن سے ظاہر ہوتا ہے لاہور اور کراچی کے چند چنیدہ مدارس کے علاوہ ملک کے اکثر مدارس کے علماء کی معلومات بھی اسی نوعیت کی ہیں۔
اکثر علماء اسلامی بینکنگ کے بارے میں صرف فتوی نویسی کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے تمام دینی امور بشمول مالیاتی امور میں امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔ میں مروجہ اسلامی بینکاری نظام کی وکالت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ، لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر علماء کرام کے نزدیک موجودہ اسلامی بینکاری نظام صحیح معنوں میں شریعت سے موافقت نہیں رکھتا تو ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو حلال مالیاتی خدمات تک رسائی کے لیے کام کریں اور ایسے پروڈکٹ اور ادارے تشکیل دیں جو بہتر طور پر شریعت اور مقاصد شریعت سےمطابقت رکھتے ہوں۔ اگر موجودہ اسلامی بینکاری نظام ہی شریعت سے مطابقت رکھتا ہے تو علماء کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام الناس کو اس مطابقت کے بارے میں اگاہ کریں اور اس نظام کے زریعے اپنی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ لوگ حرام مالیاتی خدمات سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ ان دونوں امور کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے علماء خود مالیاتی امور اور معاہدات کی اچھی تفہیم رکھتے ہوں، جب کہ بدقسمتی سے علماء کی اکثریت ان امور میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔
پاکستان میں سود کی شرعی حیثیت کے تعین کے لیے دائر کردہ مقدمہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے لیے اعلی عدلیہ میں زیر بحث رہا اور آخر کار عدلیہ نے مروجہ بینکاری نظام کو سودی قرار دے کر اس کا متبادل فراہم کرنے کے لیے مزید وقت دے دیا۔ دینی حلقوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ بینک کے سود کو ربا تسلیم کر کے متبادل تلاش کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن میرے نزدیک یہ اسلام پسند حلقوں کے لیے بڑی سبکی اور ناکامی ہے کہ اتنا طویل عرصے تک یہ مقدمہ اعلی عدلیہ میں زیر کار رہا لیکن اس دوران اسلام پسند حلقے ایک وسیع پیمانے پر قابل قبول حل فراہم کرنے میں ناکام رہے، اور عدالت کو متبادل نظام کی فراہمی کیلئے نئی ڈیڈ لائن دینی پڑی۔
اعلی عدلیہ نے بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے 2027 کا وقت دیا جبکہ حالیہ آئینی ترمیم میں جنوری2028 تک مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کا فریم ورک دیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس پر سنجیدگی سے کام ابھی تک شروع نہیں ہو سکا، اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنوری 2028 میں عدلیہ اسلامی نظام کو متعارف کروانے کے لیے ایک نئی ڈیڈ لائن دے دے گی اور اور سود سے پاک معیشت کی تشکیل مزید کئی سال دور چلی جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور صرف فتوی نویسی پر اکتفا نہ کریں ۔ علماء کی مروجہ اسلامی بینکاری نظام پر تنقید کو مثبت لیا جانا چاہئے، لیکن اس سے پہلے علماء کی اپنی تفہیم معقول ہونی چاہئے۔ اگر مالیاتی امور کی اچھی تفہیم کے بعد وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ اسلامی بینکاری نظام شرریعت یا مقاصد شریعت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا تو انہیں چاہئے کہ وہ ماہرین معیشت کے ساتھ بیٹھ کر ایسے نظام معیشت کی تشکیل کے لیے کام کریں جو عوام الناس کے لیے قابل قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو اور شریعت سے بھی بہتر مطابقت رکھتا ہو۔ اگر مروجہ اسلامی بینکاری میں ایسے پروڈکٹس موجود ہیں جو شریعت سے ہم آہنگی رکھتے ہیں تو علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بارے میں وسیع تر آگاہی مہم شروع کریں اور عوام کو ان پروڈکٹس کو استعمال کرنے کی ترغیب دیں تاکہ سود پر مبنی مالیاتی خدمات پر انحصار کم سے کم ہو سکے اور اسلامی نظام معیشت تک پہنچ سکیں۔ علماء کرام ان اشد ضروری امور میں اعراض کی راہ اپنا کر اللہ کے ہاں بری الذمہ نہیں ہو سکتے، بلکہ انہیں آگے بڑھ کر رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔
اور اس سب کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کا کام ہنگامی بنیادوں شروع کیا جائے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو غالب امکان یہی ہے کہ اعلی عدلیہ معیشت کو اسلامائز کرنے کے لئے ایک نئی ڈیڈ لائن فراہم کر دے گی اور معیشت مزید کئی سالوں تک پرانی ڈگر پر چلتی رہے گی۔
مصنف کے بارے میں
تازہ ترین خبروں
رائے01/29/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط پنجم)
رائے01/20/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں؛ قسط چہارم
رائے01/18/2025اسلامی بنکاری میری نظر میں (قسط سوئم)
رائے01/17/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط دوم)