اسلامی بینکاری میری نظر میں؛ قسط چہارم
تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن
مالیاتی امور آج کی دنیا میں بنیادی ضروریات کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور ان سے بچ کر رہنا تقریبا ناممکن ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام کی عدم موجودگی میں مسلمان صارفین کو روایتی سودی بینکاری پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر مسلمان اہل علم نے اسلامی بینکاری نظام تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روایتی بینکاری نظام میں ایسی ترامیم کی جائیں گے ان امور کا خاتمہ ہو جائے جو شرعی لحاظ سے حرام تصور ہوتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے روایتی بینکاری کی اوورہالنگ کر کے ایک ایسا نظام ترتیب دینے کی کوشش کی جو شریعہ کمپلائنٹ ہو۔ تاہم اس تبدیلی کی وجہ سے کئی پیچیدگیاں نمودار ہوئیں جنہوں نے اسلامی مالیاتی نظام کی روح کو مروجہ اسلامی بینکاری نظام سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
روایتی بینکاری بنیادی طور پر مالیاتی مینیجمنٹ کا ایسا نظام ہے جس میں تقریبا 90 فیصد کلرکوں والا کام ہوتا ہے، یعنی ایک ایئر کنڈیشنڈ آفس میں بیٹھ کر فائلوں پر دستخط کرنا۔ اسلامی بینکاری نظام نے بھی انہی خطوط پر عمل کیا، اور اپنے آپ کو کلرکوں والے کام تک محدود کیا۔ مثلا جب ایک کسٹمر اسلامک بینک سے کار فائنانسنگ کیلئے رابطہ کرتا ہے تو بینک بنیادی طور پر کچھ فائل ورک کر کے اس کیلئے کار کا بندوبست کرتا ہے۔ یہ انتظام اس چیز کو یقینی بناتا ہے کہ ٹرانزیکشن پر سود کا حکم نہ لگایا جا سکے، لیکن اس کے باوجود اسلامی اور روایتی بینکاری کے فرق کو عام آدمی کیلئے دھندلا دیتا ہے۔
اسلامی مالیاتی نظام حقیقی معاشی سرگرمیوں میں حصہ دار بننے پر زور دیتا ہے، مشارکہ، سلم، استصناع وغیرہ جیسے مالیاتی معاہدات کاروبار میں حقیقی شراکت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر بینک ان بنیادوں پر کام کریں تو ان کے پاس اپنا سٹاک ہونا چاہئے تاکہ وہ کار کو فروخت کر سکیں۔ مثلا ایک کار جو بینک یا مالیاتی ادارے کی اپنی ملکیت ہے، اس کو اقساط پر فروخت کرنا مروجہ مرابحہ کی پیچیدگیوں سے نجات دلواتا ہے اسلامی اور روایتی بینکاری کے فرق کو واضح کرتا ہے۔ لیکن مروجہ مرابحہ اسلامی بینکاری اور روایتی بینکاری کے درمیان حد فاصل کو دھندلا دیتا ہے۔
اسلامی مالیاتی اصولوں سے یہ انحراف مالیاتی معاہدوں کی حقیقی روح اور ان کی اصلیت کو مشکوک بنا دیتا ہے، اور مقاصد شریعہ کے حصول میں مددگار نہیں ہوتا۔ اسلامی بینکاری سے متعلق میری سابقہ پوسٹوں کے جواب میں چند قارئین نے کچھ تحقیقی مواد کی طرف رہنمائی کی جو مروجہ اسلامی بینکاری کی تنقید میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس تنقید میں سے بیشتر کو میں درست سمجھتا ہوں، لیکن اس مشکوک طریقہ کار کو اپنانے کی وجہ کی کھوج کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی وجہ اسلامی بینکوں کا اپنے کردار کو کلرک کے کردار تک محدود رکھنا ہے۔ حقیقی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے انکار ان امور کا سبب بنتا ہے جن پر ناقدین تنقید کر رہے ہیں۔
مثلا ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ جب ایک کسٹمر بینک سے کار کی خریداری کیلئے رابطہ کرتا ہے تو بینک اس سے اجارہ lease کے معاہدہ پر دستخط کرواتا ہے۔ بظاہر یہ ڈیل لیز یا اجارہ کی ہو رہی ہوتی ہے، لیکن بینک اور کسٹمر دونوں کو علم ہے کہ اصل مطمع نظر کار کی خریداری ہی ہے۔ صرف نام تبدیل کرنے سے معاہدے کی حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی۔
میرے نزدیک یہ تنقید درست بنیادوں پر مبنی ہے، ایک بینک اور کسٹمر دونوں کو علم ہوتا ہے کہ گاڑی کی فروخت اصل مقصد ہے۔ لیکن اس تنقید سے یہ بھی عیاں ہے کہ تنقید معاہدہ کے غیر شرعی ہونے پر نہیں کی جارہی، بلکہ لیز کی بنیادی شرائط پورا نہ کئے جانے پر کی جارہی ہے۔ اگر لیز کی شرائط کو درست طرح سے پورا کیا جائے تو ڈیل درست قرار پائے گی۔ ایک مالیاتی ادارے کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ حقیقی لیز پر عمل درامد کرے۔ بینک یا مالیاتی ادارے کے پاس اپنا کاروں کا سٹاک موجود ہو، جسے وہ حقیقی معنوں میں لیز پر دے سکے۔ ایسی صورت میں کئی اضافی فوائد بھی حاصل کئے جاسکتے ہین۔ مثلا ایک کسٹمر کی یہ خواہش ہے کہ وہ ہر سال نئی گاڑی رکھے تو وہ سال کے اختتام پر اپنے زیر استعمال گاڑی مالیاتی ادارے کو جمع کروائے اور ان سے نئے گاڑی سال کی لیز پر حاصل کر لے۔ دوسری طرف ایک ایسا کسٹمر موجود ہے جو نئی گاڑی کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ کم لیز پر استعمال شدہ گاڑی حاصل کر سکتا ہے۔ سال بعد ہر کسٹمر گاڑی واپس جمع کروا سکتا ہے جسے مالیاتی ادارہ مکینیکل ٹیسٹنگ اور مینٹننس کے بعد نئے کسٹمر یا پرانے کسٹمر کو دوبارہ لیز پر دے سکتا ہے۔ جو کسٹمر لیز کی بجائے خرید پر آمادہ ہو، اسے بیع مؤجل sale with deffered payment کی بنیاد پر مالیاتی سروس فراہم کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مالیاتی ادارے میں رقم رکھوانے والے افراد depositors کو اس سیل یا لیز کی آمدن میں حصہ دیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے معاہدات مکمل طور پر تجارت پر مبنی ہوں گے، جن کا روایتی بینکاری سے فرق واضح نظر آنے کے قابل ہو گا۔
لیکن صارفین کو سہولت دینے سے زیادہ اسلامی مالیاتی نظام کی خوبیاں پروڈیوسر فائنانسنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ پروڈیوسر فائنانسنگ کے اسلام نے دو معاہدات کا تصور دیا ہے جہیں سلم salam اور استصناع Istisnaa کہتے ہیں۔ سلم کے معاہد کی ترتیب درج زیل ہے
فرض کریں ایک کاشتکار چاول کی فصل اگانا چاہتا ہے، لیکن اس کے پاس بیج، ادویات اور دیگر امور کیلئے رقم دستیاب نہیں۔ وہ سلم کی بنیاد پر فائناسنگ کیلئے ایک مالیاتی ادارہ یا فرد سے رابطہ کرتا ہے۔ وہ مالیاتی ادارہ کاشتکار کو اس کی ضروریات کے مطابق رقم فراہم کرتا ہے اور اس کے بدلے کاشتکار سے اس کی فصل میں سے ایک مخصوص مقدار خرید لیتا ہے، جس کی فراہمی مستقبل میں چند مہینے بعد کی جائے گی۔ کاشتکار اپنی پیداوار میں سے طے شدہ حصہ مالیاتی ادارے کو دینے کا پابند ہو گا، جبکہ فاضل پیداورا کو وہ اپنی مرضی اور مارکیٹ کے حالات کے مطابق جہاں مناسب سمجھے فروخت کر سکتا ہے۔ اس معاہدے میں فصل کی مقدار، معیار اور مدت تکمیل تینوں پیشگی طے کر لئے جاتے ہیں۔ اس قسم کا معاہدہ اگر زرعی اجناس کی پیداوارسے متعلقہ ہو تو سلم کہلاتا ہے، جبکہ صنعتی پیدوار سے متعلق ہو تو استصناع کہلاتا ہے۔
سلم ایک ایسا مالیاتی معاہدہ ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سند جواز عطا فرمائی ہے۔
روایتی مائیکرو فائنانس پروگرام میں کاریگر کو قرض کی شکل میں نقد اعانت فراہم کی جاتی ہے، جبکہ رقم کی واپسی بھی نقد کی شکل میں ہوتی ہے۔ قرض لینے والے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پیداوار کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ میں بھی مہارت حاصل کرنے تاکہ پیداوار کو فروخت کر کے فائنانسر کو رقم ادا کر سکے۔ عموما دیہاتی کاشتکار اور چھوٹے کاریگر مارکیٹنگ کی مہارت نہیں رکھتے اس لئے یہ طریقہ روایتی مائیکرو فائنانس کی ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ سلم فائنانس میں کاریگر نے ادائیگی نقد کی بجائے جنس کی شکل میں کرنی ہوتی ہے، اس لئے اگر کاریگر اپنا قرض ادا کرنا چاہے تو اسے اپنی پیداوار کی مارکیٹنگ کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ اسے زیادہ پیدوار کی فکر کرنی ہوگی، تاکہ وہ اپنی زمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکے۔ یہ سوچ مجموعی پیداوار میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ سلم معاہدہ کے تحت سامان خریدنے والا یعنی فائنانسر ، زیادہ وسائل اور زیادہ رسائی کا حامل ہونے کے ناطے ، اچھی مارکیٹنگ کر کے بہتر منافع کما سکتا ہے۔
بیع سلم یا بیع استصناع کے متعدد دیگر فوائد بھی ہیں، جن میں سے چند درج زیل ہیں
1۔ سلم ماڈل ایک اشتراکی ماڈل ہے جس میں کاموں کو بانٹنے کی وجہ سے کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ روایتی سرمایہ کاری میں کاریگر کو پیداواری مہارت کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ کی مہارت بھی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ بہت سارے افراد جو قابل استعمال سامان پیدا کرسکتے ہیں ، وہ اپنی مصنوعات کے لئے مارکیٹنگ کا موقع تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اپنی جدوجہد کا صلہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سلم معاہدے میں کاریگر مارکیٹنگ کی فکر کیے بغیر صرف اپنی مہارت کے مطابق کام کرتا ہے، اور مارکیٹنگ فائنانسر کے ذمہ ہوتی ہے۔ اگر فائنانسر زیادہ مالی وسائل کا حامل نسبتا بڑا ادارہ ہو تو وہ بہتر مارکیٹنگ کی حکمت عملی کو اپنا سکتا ہے۔ اس اشتراک سے منصوبے کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
- عام طور پر ، معاشرے کا سب سے غریب طبقہ مائیکرو فنانس کا فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے کیونکہ وہ معقول ضمانت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ روایتی بنکوں کے بارے میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ بینک سے قرض حاصل کرنے کے لئے آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کو اس قرض کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مقولہ اس معنی میں درست ہے کہ کسی بینک سے قرض لینے کے لئے آپ کو مطلوبہ قرض سے زیادہ قیمت کی ضمانت فراہم کرنی ہوگی۔ موجودہ اسلامی مائیکرو فائنانس اور روایتی فائنانس دونوں کو قرضوں کی فراہمی کے لئے ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ غریب ترین افراد کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ بیع سلم کے معاہدہ میں کاریگر اور فائنانسر اس بات پر باہم متفق ہوجائیں کہ کاریگر حاصل کی گئی رقم کو وہ پیداوار کے لئے درکار سامان کی خریداری کے لئے ہی استعمال کرے تو یہ معاہدہ کی ضمانت کے متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ فنانسر کو صرف اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ معاہدہ میں مذکور مقصد ہی کے لئے رقم استعمال کی جائے گی۔
3۔ فائنانسر کاریگر کو پیداوار کے لئے درکار سامان کی شکل میں ادائیگی کا بیشتر حصہ ادا کرتا ہے، جبکہ وصول کنندہ کی فوری گھریلو ضروریات کے لئے کچھ نقد ادائیگی بھی کرسکتا ہے ۔
- اس وقت کاروبار کو سپورٹ کرنے کے لیے سب سے بہترین ذریعہ بیع سلم ہے۔موجودہ مالیاتی پالیسی کے دور میں سلم کو نہایت سہولت سے زراعت اور چھوٹے کاروبار کو رواج دینے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
5۔ سود قرض پر لاگو ہوتا ہے ،لیکن خرید و فروخت کے معاہدے پر کسی شرح سود کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
- سلم کا معاہدہ افراط زر کے اثرات سے بچنے کے لئے بھی بہتر ثابت ہوسکتا ہے. ایک عمومی قرض کے معاہدہ میں اگر افراط زر کی شرح شرح سود سے زیادہ ہو تو فائنانسر کو نقصان ہوتا ہے، اس لیے کہ رقم کی واپسی کے وقت رقم کی قوت خرید کم ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن اگر معاہدہ کی بنیاد سلم پر ہوتو فائنانسر اپنی رقم کے بدلے پیداوار وصول کرے گا اور ممکنہ افراط زر فائنانسر کے لئے نقصان کی بجائے فائدہ کا سبب بنے گا۔
- سلم کی بنیاد پرہونے والے معاہدہ میں سرمایہ کاری براہ راست پیداوار میں کی جارہی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مجموعی پیداوارمیں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتوں کو اعتدال میں رکھنا ممکن ہوتا ہے۔
ان خصوصیات کی بناء پر سلم ایک بہترین فائننشل ماڈل ہے جسے اختیار کر کے شرح سود کے اثرات کو بائی پاس کرتے ہوئے لوگوں کو کاروبار کے لیے مدد فراہم کی جا سکتی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط سے آزاد رہتے ہوئے ملکی معیشت کو سپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی مالیاتی اداروں کے پاس یہی سب سے مناسب وقت ہے کہ وہ لوگوں کو کاروبار کی بحالی میں مدد دے کر اسلامی معاشی نظام کی برتری کو سامنے لائیں، لیکن بدقسمتی سے اسلامی مالیاتی ادارےروایتی بینک کلچر سے باہر نہیں نکلنا پسند کرتے اور کھیتوں کی خاک چھان کر کالر گندے کرنے کی بجائے یخ بستہ آفس میں بیٹھ کر کلرکی کرنے کو پسند کرتے ہیں اور اسی وجہ سے موجودہ اسلامی بینکاری میں سلم اور استصناع کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے
مصنف کے بارے میں
تازہ ترین خبروں
رائے01/29/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط پنجم)
رائے01/20/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں؛ قسط چہارم
رائے01/18/2025اسلامی بنکاری میری نظر میں (قسط سوئم)
رائے01/17/2025اسلامی بینکاری میری نظر میں (قسط دوم)