آزاد کشمیر(پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) توقعات اور حقیقت

آزاد کشمیر(پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) توقعات اور حقیقت

شئر کریں

تحریر: شمس الرحمن

جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ ‘آزاد کشمیر” (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) کا تصور پہلی بار 1946 میں ریاست جموں کشمیر میں پریم ناتھ بزاز اور عبدالسلام یتو کی بنائی ہوئی جماعت ‘ کسان مزدور کانفرنس’ کے افتتاحی اجتماع میں پیش کیا گیا تھا۔ اس اجتماع کے لیے پنڈال میں داخل ہونے کے لیے بنائے گئے مختلف بڑے دروازوں میں سے ایک کا نام ‘ آزاد کشمیر گیٹ ‘ تھا۔
جیسا کہ پریم ناتھ نے ‘ آزاد کشمیر : ایک جمہوری سوشلسٹ تصور’ میں لکھا کہ ‘ شخصی راج کو ختم کر کے ‘ آزاد’ کشمیر کا قیام کسان مزدور کانفرنس کا منشور تھا جس کو تفصیل سے لکھنے کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی تھی۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ لکھ پاتے شیخ عبداللہ ہنگامی وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے آتے ہی پریم ناتھ کو ‘ ریاست بدر’ کر دیا کیونکہ وہ شیخ عبداللہ کے ناقد تھے یعنی ان پر تنقید کرتے تھے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ سیاسی طور پر تو ریاست میں ایک انقلاب آ چکا تھا لیکن سماجی طور پر طرز حکمرانی جاگیرداری اور شخصی راج کے رویوں میں ہی گندھا ہوا تھا۔ اس لیے یہ کتاب پریم ناتھ بزاز نے دہلی میں لکھی۔ سوال و جواب کی طرز پر آزاد کشمیر کا مطلب ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے ایک اندرونی طور پر خودمختار سوشلسٹ جمہوریہ قائم کرنے کا تصور تھا۔ جہاں تک کسان مزدور کانفرنس کا تعلق تھا ریاست کی اس تیسری بڑی اور انقلابی جمہوری خیالات رکھنے والی جماعت کے لیے یہ ایک تصور ہی رہا۔ کیونکہ یہ جماعت ریاست پر پاکستان و بھارت کی یلغار اور اندرونی مخاصمتوں کی ذد میں آکر ٹوٹ بکھر گئی۔ البتہ آزاد کشمیر کا تصور زندہ بچ گیا ۔ کیوں کہ مئی 1947 کو دوبارہ بنی مسلم کانفرنس نے بھی ‘ آزاد کشمیر ‘ کو آپنایا لیکن آئینی بادشاہت کی شکل میں یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کی آئینی بادشاہت میں ریاست جموں کشمیر آزاد جمہوریہ ہو گی۔ 18 اگست 1947 کو مسلم کانفرنس کی سنٹرل کمیٹی میں یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور ہوئی جب کہ بعض شہادتوں کے مطابق 19 جولائی کو وادی کشمیر کے کوئی ایک سو کے قریب نواجون کارکنان جن کو بقول یوسف صراف وہ اکٹھے کر لے لائے تھے نے آزادی کی قرار داد مسترد کر کے ان کی لکھی ہوئی الحاق کی قرار داد منظور کی جس میں دفاع، خارجہ ا، کرنسی ور مواصلات سے متعلقہ امور پاکستان کے حوالے کرنے کا عزم کیا گیا۔
تاہم جنوب ایشیاء کے وسیع تر منطر نامے پر بدلتے حالات کے زیر اثر ریاست بھی آخر کار تقسیم ہو گئی جس کی ان گنت وجوہات پر ہزاروں کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں ۔مادی حقیقت یہ ہے کہ ریاست تقسیم ہو گئی ۔ ایک طرف بھارت کے زیر سایہ نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم ہو گئی جس کو بلاشبہ اس وقت بھی وادی کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ سیکولر بھارت کے ساتھ اندرونی طور پر خود مختار رہ کر۔ دوسری طرف پاکستان کے زیر سایہ مسلم کانفرنس کی حکومت بن گئی جس کو واضح طور پر آزاد کشمیر کے علاقوں میں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔
نظریاتی طور پر مسلم کانفرنس ریاست کے اندر مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار تھی اور اس ہی بنیاد پر یہ جماعت 1941 میں ( دوبارہ) قائم ہوئی تھی ۔ یہاں اس بات کو نمایاں کرنا ضروری ہے کہ یہ مسلم کانفرنس جس کی طرف سے پہلے غلام نبی گلکار نے 04 اکتوبر کو حکومت کا اعلان کیا جس کے وہ خود صدر اور سردار ابراہیم وزیر اعظم بتائے گئے اور پھر پاکستان کے سول اداروں نے دوبارہ اعلان کر کے سردار ابراہیم کو صدر بنا کر 24 اکتوبر کو اس کا یوم تاسیس طے کیا ، یہ مسلم کانفرنس وہ نہیں تھی جو 1932 میں قائم ہوئی تھی۔ بلکہ یہ مسلم کانفرنس دوبارہ قائم کی جانے والی تھی۔ تاہم اس بات کو بھی دوہرانے کی ضرورت ہے کہ ‘آزاد کشمیر’ کے قیام کے وقت ( شاید میرپور کو چھوڑ کر ) یہ مسلم کانفرنس ہی ان علاقوں کی مقبول ترین جماعت تھی۔ اس دعوے کی حمایت میں کوئی سروے تو میری نظر سے نہیں گذرا لیکن اس دور میں رہنے والے بزرگوں سے جو کچھ معلومات ملی ہیں اس دعوے کی ایک بنیاد وہ ہیں تو دوسرے جو آخری انتخابات ہوئے تھے ریاست میں 1947 ان میں اگرچہ نیشنل کانفرنس نے بائیکاٹ کیا تھا لیکن مسلم کانفرنس کے مقابلے میں کوئی اور جماعت بھی نہیں تھی۔ مطلب تقسیم کے وقت مسلم کانفرنس ریاست کی دوسری بڑی جماعت تھی۔
نظریاتی اعتبار سے یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم کانفرنس کو دوبارہ بنانے کی ایک بڑی وجہ شیخ عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس میں وادی کی مرکزیت اور دیگر خطوں کی سیاسی قیادت کو نظر انداز کرنے کا رحجان بھی تھا۔ چوہدری غلام عباس جنہوں نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے کے کنونشن میں قوم پرستی کو حالات کا تقاضا قرار دیا اور اللہ رکھا ساگر جو بقول کرشن دیو سیٹھی سوشلسٹ خیالات کے زبردست حامی تھے کو مسلم کانفرنس دوبارہ قائم کرنا پڑی اور غلام حیدر جنڈالوی جیسے روشن خیال سیاسی رہنما بھی اس میں شامل ہوئے۔ یوں مسلم کانفرنس کا جب ‘آزاد کشمیر’ میں اقتدار قائم ہوا تو اس میں جدید نظریات یعنی قوم پرسری، سوشلزم اور سیکولر ازم سے وابستہ کارکنان اور رہنما بھی شامل تھے۔ البتہ مجموعی طور پر مسلم کانفرنس کا نظریہ مسلمانوں کے سیاسی،سماجی، معاشی و ثقافتی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ اکثر کارکنان کی توقع یہی تھی کہ ‘آزاد کشمیر’ میں مسلم کانفرنس اسلام میں عدل و انصاف اور عوامی بھلائی کے لیے کام کرتے ہوئے خطے کے عوام جو صدیوں سے جاگیرداری، ساہوکاری اور برادری تعصبات و استحصال سہہ رہے تھے ان کی قسمت کو سنوارے گی۔
تاہم ایک دو سال کے اندر ہی مسلم کانفرنس کے اندر باشعور رہنماؤں اور کارکنان پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا کہ مسلم کانفرنس پر درحقیقت جن سیاست کاروں کو غلبہ حاصل ہے ان کو عوامی فلاح و بہبود اور عدل و انصاف کی بجائے اقتدار حاصل کرنے ، برقرار رکھنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں زیادہ دلچسپی ہے ۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے متبادل راستوں پر غور کرنا شرور کر دیا۔ تقسیم ریاست سے فوری پہلے نظریات کی ‘ پینگ’ (دھنک ) میں الحاق پاکستان کا نظریہ بھی شامل ہو چکا تھا۔ یہاں یہ بات بھی زہن نشین رہے کہ ‘آزاد’ کشمیر میں قائ کی گئی حکومت کو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے سے کے اختیارات حاصل نہیں تھے لیکن ‘آزاد کشمیر’ کے اندرونی معاملات بشمول تعمیر و ترقی کے لیے اختیار حاصل تھے لیکن اس وقت کی قیادت نے اس کی بجائے ‘ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت’ اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور اسلام کے ثقافتی پہلوؤں ‘ لباس’ اور عبادات کے پہلووں کو ترجیح دے کر ان مسائل کو پس پشت ڈال دیا جن کی وجہ سے ریاست میں عوامی تحریک اٹھی تھی اور جن کی وجہ سے مسلم کانفرنس دوبارہ بنانے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ مختصر لفظوں میں یہ کہ مسلم کانفرنس ‘آزاد کشمیر’ کے قیام کے ساتھ ہی اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو گئی تھی ۔ چوہدری غلام عباس، میر واعظ اور سردار ابرہایم کے دھڑے دھڑا دھڑ اپنی اپنی بقاء کے تقاضے نباہ رہے تھے۔
میرپور چونکہ سنتالیس سے پہلے عوامی حقوق اور ترقی پسندانہ سیاست کا گڑھ تھا جہاں ہندو، مسلم اور سکھ رہنماؤں نے کامیابی سے مہاراجہ کے شخصی نظام اور ساہوکارہ کے خلاف مل کر جدوجہد کی تھی اس لیے یہاں تقسیم سے پہلے کی ترقی پسندانہ سیاست کے اثرات زیادہ گہرے تھے اور متبادل نظریات کے نہ صرف اثرات باقی تھے بلکہ ان کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے عوامی سیاست کے عظیم استادوں ، راجہ کبر، سردار بدھ سنگھ، عدباللہ سیاکھوی، مولوی وہاب دین ا، کرشن دیو سیٹھی اور دیگر کئی عظیم سیاسی کرداروں کے زیر سایہ کام کرنے یا ان کے خیالات و سیاسی کام سے واقف کئی ایک اہم شخصیات بھی یہاں موجود و متحرک تھیں۔
آزاد کشمیر کے ان ابتدائی سالوں میں نظام حکومت میں مہاراجہ عہد کی فرسودہ انتظام کاریوں اور مسلم کانفرنس کی اندرونی حالت پر تفصیلات دانش ارشاد کی ابھی حال ہی شائع ہوئی کتاب ‘ آزادی کے بعد’ اور عبدالخالق انصاری کی’ متاع غرور ‘ میں پڑھی جا سکتی ہیں۔

مصنف کے بارے میں

Shams Rehman
Shams Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *