بدھل پاس، کشمیر کو پنجاب سے ملانے والا ایک اہم درہ
تحریر: ذاکر ملک بھلیسی
ریاست جموں کشمیر کی صرف مغل روڈ نہیں بلکہ ماضی میں توشہ میدان راستہ، درہال درہ کا راستہ اور بدھل کا راستہ بھی کشمیر کو پنجاب سے جوڑتا تھا اور یہ راستہ تجارت اورآمد رفت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج میں جناب محب الحسن کی ایک کتاب “کشمیر انڈر سلطان” پڑھ رہا تھا۔ کتاب کے صفحہ 34اور 35پر پیر پنجال کے دروں کا ذکر ہے اس میں مصنف لکھتے ہیں کہ سداؤ یا بدھل پاس (14,000 فٹ) سری نگر کو اکھنور اور سیالکوٹ کے ساتھ تقریباً سیدھی لکیر میں جوڑتا ہے۔ اپنی بلند چوٹانی سطحوں کی وجہ سے، یہ صرف پیدل سفر کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، لیکن اپنی مختصر مسافت کی وجہ سے، یہ ماضی میں کشمیریوں کے لیے ایک پسندیدہ راستہ تھا۔ سداؤ کا نام اس راستے کو کشمیری جانب پہلے گاؤں کے نام پر دیا گیا ہے۔
شری دھر اسے “سدھادیسا” کہتا ہے، جو کلہن کے “سدھاپتھا” کا ایک متبادل ہے۔ اس راستے کے ذریعے جموں سری نگر سے صرف 129 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ راستہ شوپیاں سے کلگام ضلع کے اہربل آبشار اور آگے سرسوٹ علاقے سے اونچی چراگاہوں اور جھیلوں سے ہوتا ہوا بدھل پاس کو پار کرکے راج نگر بدھل پہنچتا ہے۔
بدھل کے لوگ اکثر کشمیر پہنچنے کے لئے اس راستے کو حال تک استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب بھی لوگ سیر و تفریح کے کئے بدھل سے نکلتے ہیں ڈونگی مرگ کے پاس یہ راستہ مغل شاہراہ سے ملتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سڑک کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بن گیا ہے جس کو محکمہ تعمیرات نے بنایا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ یہ سڑک صرف 94 کلومیٹر ہے۔
اس وقت مغل شاہراہ سے بدھل والوں کے لئے شوپیاں 200کلومیٹر کے قریب ہے اور جموں کے راستے سرینگر پہنچنا ہو تو510کلومیٹر ہے۔ اس سڑک کا نقشہ، “کشمیر انڈر سلطان” کتاب کے صفحہ 34اور 35 ، مکین احمد کا بدھل گلی پیر پنجال اوربدھل قصبہ کی تصاویر اپلوڈ کررہا ہوں