جلتی آگ اس لئے نہیں بجھائی کہ گھر واپس آکر انگاروں سے دوبارہ آگ جلائیں گے
شہزاد خان
عادل رشید کی عمر اکتالیس سال ہے وہ نو سال کا تھا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے ہجرت کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آگیا تھا۔
عادل رشید کو یہ بات آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب انہوں نے جب اپنا گھر باہر چھوڑا تو قریب دوپہر کا وقت تھا گھر سے نکلتے وقت عادل رشید کے تایا جان نے چولہے میں جلتی آگ کو محض اس لیے نہیں بجھایا وہ انہی انگاروں سے آ کر دوبارہ اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے۔
عادل بتاتے ہیں کہ وہ قافلے کی صورت میں بور کے مقام سے کنٹرول لائن عبور کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے بور کیرن کے قریب ہی واقع ہے جہاں اس وقت دونوں ملکوں کا کڑا پہرا ہے آج تین دہائیوں سے زیادہ وقت ہو چکا عادل رشید کا خاندان اپنے گھروں واپس نہیں جا سکا۔
عادل رشید کی ایک بہن اور دیگر قریبی رشتے دار ابھی بھی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے علاقے کیرن میں آباد ہیں۔ عادل رشید کی عمر تین برس تھی جب اسکی بہن کی شادی ہوئی تھی ہجرت کے وقت عادل رشید کی بہن بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہی رہ گئی تھی جسکی یاد عادل رشید کو ہر وقت ستاتی ہے عادل کی ماں کی قبر اور اسکی کی بہن کا گھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے اسانی سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن وہ خونی لکیر کے باعث ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے ۔
عادل رشید ہجرت کے ٹھیک بائیس سال بعد اپنی بہن سے اس وقت ملا جب وہ ویزہ حاصل کرنے کے بعد چھ ماہ کے لیے اپنے بھائیوں اور والد سے ملنے آئی عادل کے مطابق یہ چھ ماہ بھی روتے ہوئے گزرے اور جب ان کی بہن واپس جا رہی تھی تو منقسم خاندان غم و الم میں مبتلا تھا عادل کی بہن الوداعی ملاقات میں سب سے پہلے اپنے والد کے گلے سے لپٹ کر رو رہی تھی پھر وہ اپنے بھائیوں سے ملی سب سے آخر میں وہ عادل سے ملی کیونکہ وہ ان بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے ملتے ہوئے عادل اور اسکی بہن یہی سوچ رہے تھے کہ وہ دوبارا کبھی نہیں مل سکیں گے عادل آنسو صاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں دریا کے کناروں سے ہو کر بہن کو دیکھا خیریت پوچھی تو وہ خاندان کی تقسیم پر چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔
تین سال قبل بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کیرن میں آباد عادل رشید کی پھوپھی کے انتقال پر وہ شریک نہیں ہو سکے دریا کے کنارے ان کی میت کو لایا گیا یہاں سے ہو کر ان کی چارپائی دیکھی گئی عادل کے مطابق ان کے بچوں کو کوئی دلاسہ دینے والا نہیں تھا جو ہم سب کے لیے ازیت ناک ہے۔
عادل رشید کہتے ہیں کہ واٹس ایپ اور فیس بک نے ہماری بہت ساری پریشانیوں کو دور کیا ہے گیارہ ستمبر کو ان کے بھانجے کی شادی تھی وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ اور واٹس ایپ کے ذریعے شریک ہوئے ۔ عادل رشید کی اہلیہ نے مہندی تیار کر رکھی تھی ایک لوک گیت بھی گایا جس کے بول کچھ یوں ہیں ” ہم نے آپ کے لیے مہندی سجائی ہے مظفرآباد میں سرینگر لا نہیں سکتے”
عادل رشید کہتے ہیں کہ مہندی کی رسم میں دونوں اطراف ہم رات دو بجے تک بیٹھے رہے روتے رہے کوئی بھی کھانا نہیں کھا سکا۔ ہم مل کر رہنا چاہتے ہیں دنیا میں کوئی بھی ہمارے دکھوں کو نہیں سمجھ سکا