آزاد کشمیر میں مہنگی بجلی کا بحران کیوں؟
تحریر اکرم سہیل،سابق سیکریٹری برقیات
ملک میں بجلی کے انتہائی مہنگے ریٹ پر بلات کی وجہ سے غریب لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بجلی کی مہنگائی ایک مہلک بم کی شکل اختیار کرچکی ہےاور ہر آنے والا دن اس مصیبت میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔مہنگی بجلی کا مطلب صنعتی ترقی کا پہیہ روکنا اور لوگوں کو غربت اور بے روزگاری کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر جہاں پن بجلی کے پرائیویٹ سیکٹر میں منصوبوں کے علاوہ صرف واپڈا تقریبا” 2400 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہےجس کی سالانہ آمدنی 3 کھرب روپے سالانہ سےزائد ہے لیکن یہاں کے لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ بجلی کے بڑھتے ہوئے ٹیرف سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔جس کا آزاد کشمیر کے لوگوں میں شدید رد عمل ظاہر ہورہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حال ہی میں واپڈا نے آزاد کشمیر کیلئے بجلی کا بلک ٹیرف ریٹ2روپے 59 پیسے سے کوئی آٹھ گنا بڑھا کر اسے21 روپے فی یونٹ مقرر کر دیا ہے جو آزاد کشمیر میں 5 قسم کے ٹیکسز اور ٹیرف سلیب کے نتیجہ میں اوسط 50 روپے فی یونٹ سے بھی زائد صارفین کے گلے پڑے گا۔ واپڈا ٹیرف بڑھانے کی یہ جوازیت دے رہا ہے کہ پاکستان میں یہی فی یونٹ اوسط ٹیرف رائج ہے لہذا آزاد کشمیر حکومت سے بھی یہ بلک ٹیرف وصول کیا جائے گا۔۔ان کی یہ بات صرف اس صورت میں تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی پن بجلی آزاد کشمیر کی ضرورت سے کم پیدا ہو رہی ہوتی تو پاکستان میں مہنگے نرخوں پر پیدا ہونے والی بجلی آزاد کشمیر کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مہیا کی جاتی تو پھر اسے پاکستان میں مہنگے داموں پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کے برابر آزاد کشمیر حکومت کو 21 روپے فی یونٹ بیچنے کا جواز بن جاتا ۔ آزاد کشمیر میں صرف واپڈا کے زیر انتظام سرکاری سیکٹر میں منگلا ڈیم سے تقریبا” 1300میگا واٹ اور نیلم جہلم پراجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی رواں لاگت ایک یا دو روپے فی یونٹ سے زائد نہیں ہے ۔اور آزاد کشمیر کی ضرورت صرف 400 میگا واٹ ہے، ایسی صورت میں آزادکشمیر میں پاکستان میں مہنگی پیدا ہونے والی بجلی کا ریٹ نافذ کرنے کا قطعا” کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ پاکستان میں تو اس توانائی کے بحران کی جڑیں ماضی کی غلط حکومتی پالیسیوں میں پیوست ہیں جس کے بھیانک نتائج آج پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں اور شائد ثواب کی خاطر آزاد کشمیر کے عوام کو بھی اس میں اس لئے گھسیٹا گیا ہے تاکہ ان کے پاکستان کے عوام کے ساتھ اتحاد، یکجہتی اور الحاق کے رشتے اور مضبوط ہو سکیں ۔ پاکستانی قوم اور ملک کی یہ بڑی تباہی اس وقت شروع ہوئی جب کوئی دس پندرہ سال قبل ہائیڈرل جنریشن جو بجلی کی پیداوار کیلئے قدرت کی طرف سے فری فیول کی بنا پر سستی ترین بجلی کا ذریعہ ہے اس کے پراجیکٹس ملٹی نیشنل سامراجی کمپنیوں کو لوٹنے کیلئے دے دیئے گئے اور مہنگے فیول والے ذرائع حکومت نے اپنے گلے میں ڈالے۔ میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے اس وقت بطور سکریٹری برقیات نہ صرف حکومت پاکستان کو اس پالیسی کے تباہ کن نتائج سے تحریری طور پر متنبہ کیا بلکہ اخبارات میں ایک مضمون بعنوان ” تاریک پاکستان اور پانی کی بردہ فروشی ” بھی لکھا کہ اسی عرصہ میں ملک میں توانائی کا بحران پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں انڈیپنڈنٹ پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز ( IPPs) کا طبقہ منظرعام پر آیا ۔انہوں نے چین اور یورپ سے بجلی کے وہ پلانٹ جو تیل سے چلتے تھے اور وہاں متروک کر دیئے گئے تھے وہ وہاں سے کوڑیوں کے مول لیکر یہاں لگا دیئے ۔جن سے انتہائی مہنگے داموں بجلی خرید کی جا کر لوگوں کو مہیا کی جا رہی ہے اور حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ ان کیلئے تیل مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ اور تیل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی کی نہ صرف قیمتیں بڑھیں گی بلکہ یہ بھی شرط ہے کہ اگر حکومت تیل مہیا نہیں کرتی اور بجلی پیدا نہیں ہوتی یا بجلی کی کھپت نہیں ہو رہی یا یہ بجلی پیدا بھی نہیں کر رہے ہیں پھر بھی حکومت ان پراجیکٹس کی پوری پیداواری استعداد کے مطابق فی یونٹ بجلی کی قیمت ان کارخانوں کو ادا کرنے کی پابند ہو گی۔۔۔ان کارخانوں میں بجلی پیدا نہ ہونے کے باوجود حکومت نے جو ادائیگی کرنی ہے وہ ساری دنیا کی یہ مقروض حکومت کبھی ادا نہیں کر سکتی ہے،اس قابل ادائیگی رقم کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کہا جاتا ہے جو سارے ملک میں لوگوں کے بجلی کے بلوں میں اضافی طور پر ڈالا جاتا یے۔اور قابل ادائیگی رقم کو ‘سرکلر ڈیٹ ‘کا نام دیا گیا ہے۔ جو اس وقت تک 6۔2 کھرب روپے ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی ادائیگی کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ رقم لوگوں کے بلات میں ڈال کر بھتہ خوری کی شکل میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجرز کے نام پر عوام سے وصولی کی جا رہی ہے۔ یعنی کرپٹ مقتدر اشرافیہ کے جرائم کی سزا عوام کو دی جارہی ہے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا ان کمپنیوں کی پیداواری قیمت میں ایک سینٹ کے اضافہ کے عوض ایک ارب روپیہ رشوت کا ریٹ ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بھتہ خوری کی یہ رقم بمعہ نیلم جہلم سر چارجز آزاد کشمیر کے عوام سے بجلی کے بلات میں کیوں وصول کئے جاتے رہے ہیں اور پھر واپڈا کے نام پر لوگوں سے وصول کر کے آزاد کشمیر کی حکومت اپنے خزانے میں کیوں ڈالتی رہی ہے؟ ایک دفعہ میں نے اس وقت کے سیکرٹری مالیات سے اس کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ یکساں سلوک اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے پاکستان کے لوگوں سے محبت اور یگانگت کے رشتے اور مضبوط ہو سکیں اور انہیں کسی طور یہ احساس محرومی نہ ہو کہ ان کے کے ساتھ پاکستان کے عوام سے ہٹ کر کوئی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں ہم آزاد کشمیر میں بجلی کے مقررہ ٹیرف کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ آزاد کشمیر میں واپڈا کی جانب سے بجلی کا ریٹ مقرر کرتے وقت پاکستان میں رائج بجلی کے ریٹس سے موازنہ کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ منگلا ڈیم کی بجلی آزاد کشمیر میں آزاد کشمیر کے پانی سے سستی ترین ریٹ پر پیدا ہوتی ہے جو آزاد کشمیر میں صرف اس کی فی یونٹ رواں لاگت جو ایک یا دو روپے فی یونٹ ہے ،کے معیار پر ہی دی جا سکتی ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جس خطہ میں قدرتی وسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا پہلا حق استفادہ وہاں کے لوگوں کا ہوتا ہے اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس چارٹر کے مطابق انہیں ایکسپلائیٹ کر کے انہیں نفع کمانے کی غرض سے لوٹا نہیں جا سکتا۔بلکہ آئین پاکستان میں تو درج ہے کہ فیڈرل حکومت بجلی کی پیداوار کیلئے کسی بھی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کیلئے پن بجلی کے کارخانے تو لگا سکتی ہے لیکن ان پراجیکٹس سے صرف ان پر آنے والی ابتدائی لاگت اور رواں اخراجات وصول کر سکتی ہے اور ان پراجیکٹس میں پیدا ہونے والی بجلی سے جو منافع ہو گا اس کا سارا حق صرف اس صوبے کا ہوگا جہاں یہ پن بجلی گھر کام کر رہے ہیں جسے خالص منافع یا نیٹ ہائیڈل پرافٹ کہا جاتا ہے۔ یہ نہ پندرہ پیسے تھا نہ سوا روپے ہے بلکہ جی این قاضی فارمولا کے تحت بھی وہ تمام منافع ہے جو اس ڈیم کے اخراجات پورے ہونے بعد اب اس سے پیدا ہونے والی بجلی سے کمایا جا رہا ہے۔وہ آزاد کشمیر کے لوگوں کا حق ہے اور آئین پاکستان میں یہی فارمولا لکھا گیا ہے۔جس کے تحت آزاد کشمیر کو بطور استحقاق ملنے والا یہ خالص منافع انرجی مکس میں ڈال کر ہڑپ کرنا اور آزاد کشمیر کو اس سے محروم کرنا آئین پاکستان کی صریحا” خلاف ورزی ہے۔۔ آزاد کشمیر میں بننے والے دیگر پرائیویٹ پاور پراجیکٹس کو زیر بحث لائے بغیر آزاد کشمیرمیں سب سے پہلے تعمیر ہونے والے پراجیکٹ منگلا ڈیم میں پیدا ہونے والی بجلی کے حوالے سے ہی ٹیرف کے مسئلہ کو زیر بحث لاتے ہیں تاکہ اس مسلہ کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کاٹیرف مقرر کرنے کا کیا فارمولا اختیار کیا جاتا رہا ہے۔۔ منگلا ڈیم سے اس وقت1300 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے اور آزاد کشمیر کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 400 میگا واٹ ہے۔ پچاس سال پہلے بننے والے پراجیکٹ پرڈیڑھ ارب ڈالر جو اس وقت کے زیادہ سے زیادہ 5 ارب پاکستانی روپے بنتے تھے خرچ ہوئے تھے۔ ہائیڈل جنریشن کے پراجیکٹس پر ہونے والے اخراجات،اس پراجیکٹ کی پیداوار شروع ہونے سے پانچ اور زیادہ سے زیادہ دس سال کے عرصہ کے اندر وصول ہو جاتے ہیں اور پھر بجلی کی پیداوار پر صرف رواں اخراجات جو مشینری کی مرمت یا وہاں ملازمین کی تنخواہوں پر اٹھتے ہیں صرف وہی اخراجات گنے جاتے ہیں ۔جو آج بھی ایک یا دو روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی جب آزاد کشمیر کو مہیا کی جانے لگی تو اس کی بلک سپلائی فی یونٹ رواں لاگت ایک روپے کے لگ بھگ تھی جو آزاد کشمیر کیلئے بلک ٹیرف مقرر کیا گیا ۔ جس میں وقتا” فوقتا” اضافہ کیا جاتا رہا اور منگلا ڈیم کی توسیع کے سال 2004 میں یہ 2روپے 59 پیسے فی یونٹ مقرر کیا گیا ۔یعنی آزاد کشمیر کو پن بجلی کا ریٹ مقرر کرنے کا فارمولا وہ نہیں تھا جو پاکستان میں بلات کا ریٹ مقرر کرنے کیلئے اختیار کی جاتا رہا ہے۔ کیونکہ آزاد کشمیر میں بجلی کے انتظام و انصرام کیلئے آزاد کشمیر حکومت کا اپنا سرکاری محکمہ برقیات موجود ہے جو آزاد کشمیر حکومت کے اخراجات پر چل رہا ہے اور ملازمین کو حکومت بجٹ سے تنخواہیں دیتی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں تیل سے مہنگی بجلی بنانے کی وجہ اور وہاں کی ڈسکوز کے اخراجات بجلی کے بلات میں صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر میں جیسے کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے کہ ابھی تک دو روپے 59 پیسے کی شرح منگلا ڈیم میں فی الوقت فی یونٹ رواں اخراجات کے فارمولے پر تعین ہوتے آئے ہیں۔لہذا یہاں آزاد کشمیر میں واپڈا وہ ٹیرف لاگو نہیں کر سکتا جو پاکستان میں لاگو ہوتا ہے۔،البتہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں واپڈا کی جانب سے رعایتی نرخوں پر ملنے والی بجلی کا فائدہ آزاد کشمیر کے لوگوں تک نہیں پہنچایا گیا بجلی کی قیمت خرید تو سستی رہی لیکن لوگوں سے وصولیاں پاکستان میں رائج ٹیرف کے مطابق ہی کی جاتی رہیں اور یہ سہولت لوگوں تک منتقل کرنے کے بجائے لوگوں کی جیبیں خالی کر کے آزاد کشمیر کی حکومتی آمدن کا ذریعہ بنا دیا گیا۔جو ناقابل تلافی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ گلگت بلتستان میں آج بھی 2 روپے سے 5روپے فی یونٹ کے حساب سے گلگت کی حکومت لوگوں کو بجلی مہیا کر رہی ہے۔ جبکہ اب ہمارے بجلی کے بلات بھی لاہور سے پرنٹ ہو کر آ رہے ہیں۔اور آزادکشمیر حکومت کے ہاتھ ان کی مرض اور معائدہ کے ذریعے مکمل طور پر جکڑ دیئے گئے ہیں ۔آزاد کشمیر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام معاہدوں کو عوامی اور ریاستی مفادات کے خلاف ہونے کے فوری منسوخ کرے۔ کہ واپڈا کی جانب سے پاکستان میں مہنگی بجلی کے فی الوقت رائج ریٹ کے برابر آزاد کشمیر کا ٹیرف مقرر کرکے وصول کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ پاکستانی کرپٹ مقتدرہ کی جانب سے غیر ملکی کمپنیوں سے کمشن لے کر پاکستانی عوام کیلئے جو موت کے کنویں کھودے گئے ان کنووں میں آزاد کشمیر کے بے گناہ عوام کو بھی دھکیلا جائے۔ صرف منگلا ڈیم جو آزاد کشمیر میں واقع ہے اس سے 1300 میگا واٹ، کھربوں روپے کی سالانہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس میں سے یہاں کے لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں 400 میگا واٹ بجلی اسی نرخ پر دی جائے جو آج منگلا ڈیم کی ٹربائینیں چلانے پر رواں خرچ آرہا ہے۔واپڈا استعمال کیلئے یہاں بجلی پیدا کر سکتا ہے لیکن اسے منافع اور کمائی کا ذریعہ نہیں بنا سکتا۔ رواں اخراجات سے زیادہ شرح پر ٹیرف کی وصولی آزاد کشمیر کے قدرتی وسائل اور ان سے پیدا ہونے والے مالی وسائل ملکی یا غیرملکی کارپوریٹ کمپنیوں کی لوٹ مار کے ضمن میں آئے گا جو نہ صرف آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی اور علاقائی حقوق اور ہائیڈرل جنریشن سے متعلق آئین پاکستان میں لکھے آرٹیکلز میں مقررہ اصولوں ، بلکہ یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائیٹس کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کہ کسی بھی خطے کے مقامی قدرتی وسائل کے استفادہ اور منافع سے وہاں کے لوگوں کو محروم کرنا دنیا میں سامراجی استحصال کہلاتا ہے۔