تحریر شوکت جاوید میر
۔مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن،خاک ہو جائیں گے تم کو خبر ہونے تلک یہ شعر جناب وزیراعظم چوہدری انوارلحق سینئر کی منفرد اندازِ حکمرانی پر عہد حاضر میں چشم کشا حقائق پر روشنی کے مترادف ہے لاکھ بحث و تمحیص کر لی جائے تابڑ توڑ حملوں،الزامات،ضد عداوت کے نشتر چلانے والوں اور ناقدین کے سارے چھبتے فقروں کا ایک جملے میں سارا جواب یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ وہ بھی من وعن وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق قابلِ ستائش ہے اور اس طرح وزیراعظم چوہدری انوارلحق نے شدید بد انتظامی ، عوامی مزاحمتی سیلاب کو بے اثر کر کے سیاسی مخالفین کے من چاہے خواب کی تکمیل سے قبل نبض شناسی کا انجکشن لگا کر میٹھی نیند سے بیدار کروا دیا اب سارے تحفظات کے باوجود سرکاری ملازمین اتحاد کی جملہ قیادت کے کندھوں پر بھاری ذمداریاں نبھانے کا وقت آ چکا ہے جس کیلئے فوری طور پر وہ پورے آزاد کشمیر میں یوم تشکر مناتے ہوئے پروردگار عالم سرکار دوعالم کا شکر ادا کریں اور وزیراعظم چوہدری انوارلحق کے اعزاز میں پروقار استقبالیہ اجتماع منعقد کرنے کا اہتمام کرتے ہوئے باقی جائز مطالبات منوانے کا نادر موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں وہ بھی پنشنرز کو ساتھ شامل کر کے قارئین محترم چوہدری انوارلحق وزیراعظم سیاستدان تو قابلِ اور جہاندیدہ ضرور ہیں ساری قباحتوں کے باوجود تاہم اہل سیاست اور انسان شناسی،چہرہ شناسی کے دعویدار اور خلق خدا اک نکات کو ذہن و قلب میں رکھ کر انھیں پرکھا کریں کیونکہ چوہدری انوار الحق نہ تو خان عبدالحمید خان ہیں نہ ہی مجاہد اول سردار عبد القیوم خان، یا سردار سکندر حیات، ممتاز حسین راٹھور، ہیں نہ درویش صفت صاحبزادہ اسحاق ظفر مرحوم کی طرح کے عوامی ہیں نہ ہی انکا تقابلی جائزہ انسان دوست کدورتوں کے فن سے نا بلد فتح کے زعم اور شکت کے خوف سے آزاد برادری کے خول سے مبرا فقیر مزاج چوہدری عبد المجید ہیں انھیں مفلوک الحال عوام،پسیہوئے طبقات،دوائی،ہڑھائی کو بلکتی انسانیت کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا نہ ہی انھیں نظریاتی وابستگی رکھنے والے جانثار کارکنوں کے مسائل کا احساس ہو سکتا ہے کیونکہ قارئین محترم وہ مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں سونے کے چمچ منہ میں لیکر دنیا میں رب العزت نے بھیج دیئے آسائشوں میں پلے بڑھے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم اور معقول،بڑے کھاتے پیتے معروف سیاسی گھرانے میں تربیت ہوئی جاٹ قبیلے کے سرخیل سابق سینئر وزیر صحبت علی کے فرزند چوہدری انوار الحق نے نہ کبھی دوڑ دھوپ نہ پکی ٹھکی نظریاتی سیاست کی نہ کبھی وفاداری کا بوجھ اٹھایا نہ عوامی جمہوری تحریکوں کا حصہ بن کر ریاضت سے نبر آزما ہوئے محلاتی سازشوں یہ منصوبہ بندی کے روح رواں رہے ہیں تب ہی تو انتخابی سیاست کیلئے انکی ہی تحریک انصاف سے وابستہ دو وزرائے اعظم کو چشم فلک کے سامنے رات کی تاریکی میں نہیں دن کے اجالے میں ڈکار گئے اور وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے آپنا گلہ آپ کٹتے دیکھ کر بھی کچھ نہ کر سکے جن میں جناب سردار عبد القیوم نیازی اور سردار تنویر الیاس کے فوٹو ایوان وزیراعظم میں انکے پیش رو حکمرانوں میں شامل ہیں کوئی شک و شبہ کی اس دلیل میں کوئی گنجائش نہیں کہ وزیراعظم چوہدری انوارلحق ذہانت،فطانت،علم و حکمت میں خداد صلاحیتوں کے مالک ہیں تب ہی تو پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے آزاد کشمیر میں وزیراعظم چوہدری عبد المجید کی سربراہی میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کے عہد میں پاکستان کی سیاست میں فولادی عزم رکھنے کی شہرت یافتہ خاتون رہنما سیاسی امور کی چیئرپرسن محترمہ فریال تالپور کراچی سے کشمیر تک کارکنوں کی آواز چوہدری ریاض نے پارٹی کے اہم ترین رہنما چوہدری پرویز اشرف کی ناراضگی مول لیکر پارلیمان سے باہر ہونے والے چوہدری انوارلحق کو گڈ گورننس کمیٹی کا چیرمین تعینات کر دیا بحثیت دو سال تک اسپیکر رہنے والے چوہدری انوارلحق کی علمی آئینی قابلیت اظہر من الشمس ہے اور پارلیمان کا اعزاز ہے محترم قارئین میرے نزدیک چوہدری انوار الحق کی پنہاں صلاحیتوں کے جوہر اس وقت آشکار ہونے جب وہ اتحادی حکومتی کابینہ میں وزیر ہاؤسنگ بنے اور اسمبلی کی تین گھنٹے سے زائد انکی پوری تیاری سے بجٹ تقریر انھیں اکھڑ مزاج ممبر اسمبلی سے صف اول کے قابل سمجھے جانے والے نوجوانوں میں شمار کرنے کی خشت اول ثابت ہوئی جس کی گونج اب بھی ایوان میں سنائی دے رہی ہے جناب وزیراعظم انوارلحق صاحب آپ نے دوسال تک سپیکر رہتے ہوئے صوابدیدی عہدے خالی رکھے اور اب شکت کھانے والے سیاسی کارکن ٹکٹ ہولڈرز کے سیاسی مخالف حکمران بن چکے ہیں کیوں؟ آپ جب ایوان سے باہر تھے آپ کے شاہانہ مزاج پر کیا کاری ضرب لگتی تھی بعض ناخداوں کے رویوں سے اسکا سواں حصہ ہزاروں ووٹ لینے والوں کا احساس کر لیں تو آپ انصاف پسند حکمران کی قدر منزلت پر فائز ہو جائیں گے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کرام میں میاں عبد الوحید،سردار جاوید ایوب خان، سید بازل علی نقوی،جاوید اقبال بڈھانوی, عامر یاسین،فیصل ممتاز راٹھور،چوہدری قاسم مجید۔عامر غفار لون کے علاوہ کرنل وقار نور،ملک ظفر اقبال،نثار عنصر ابدالی،یاسر سلطان وزیراعظم چوہدری انوارلحق کی انقلابی اصلاحات میں کلیدی کردار ادا کی اہلیت تجربہ صلاحیت استطاعت عوام دوستی کا جذبہ رکھتے ہیں اگر چہ چوہدری لطیف اکبر مظبوط سیاسی نظریاتی وابستگی پر قائم رہتے ہوئے سیپکر اسمبلی کے منصب پر فائز ہوئے ہیں حالانکہ انکی طویل ترین ریاضت وزارت عظمیٰ کی متقاضی ہے چوہدری محمد یاسین پارٹی صدر رہ کر ضمنی انتخاب میں جیت کا بیالیس سال بعد ایک ناقابل یقین معرکہ سر کرنے میں سرخرو ہو گئے تاہم گھر کے ڈرائنگ روم میں جلتی آگ کے شعلوں نے چوھدری لطیف اکبر ،چوھدری محمد یاسین ،سردار یعقوب خان (تینوں امیدواران ڈبل راڈ)کی جائز ترجیحات سمیت ان گنت نظریاتی پیروکارں کی خواہشات کا خون بیچ چوراہے نا اتفاقی ،عدم برداشت کی بناء پر ہوتا ہر خاص و عام نے دیکھا اب بھی سلجھاؤ کے بجائے الجھاؤ کے اٹھتا دھواں واقفان حال بیاں کرتے ہیں وزیراعظم چوہدری انوارلحق سے چند گزارشات ہیں وہ یہ جملہ ہسپتالوں میں فیل فی میل ڈاکٹر صاحبان کو اپنی اصل جائے تعیناتیوں پر حاضری وقت اور بشمول سی ایم ایچ وہاں ہی پرائیویٹ پریکٹس کا پابند کرنے میں کلیدی تاریخ ساز کردار ادا کر کے ہمیشہ کیلئے عوام کے دل و دماغ میں امر ہو جائیں اور یہ کہ نادار ،مستحق ،یتموں ،بیواؤں کیلئے ادوایات اور ٹیسٹ کی سہولیات بغیر فیسوں کے کرنے کے احکامات صادر فرمائیں ،ازادکشمیر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کو تعلیمی اخراجات فراھم کرنے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے فرائض منصبی سر انجام دیں وزیراعظم چوہدری انوارلحق کو تجویز ہے کہ اپنے اردگرد دوستوں ہمدردوں کے روپ میں آستین کے سانپوں پر نظر رکھیں بعض بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کا کردار ادا کرتے ہوئے بیس پچیس افراد میں اچانک سیل فون کان سے لگا کر جی وزیراعظم صاحب حکم معذرت خواہ ہوں میں مصروفیات کی وجہ سے اپکے پاس حاضر نہیں ہو سکا پھر فون بند کر کے ادھر ادھر فاتحانہ انداز میں اہل محفل کی جانب دیکھتے ہوئے خود ہی ارشاد فرماتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری انوارلحق کا فون تھااور فون جیب میں ڈالنے کے بعد وہ جناب یا صاحب کے اضافی جملے حذف کر کے اپنی برتری قائم رکھنے کی خود ساختہ دھن میں مشغول ہو جاتے ہیں ،ضمیروں ایک گروہ منہ پہ زمین آسمان کے قلابے بھرتا ہے وزیراعظم چوہدری انوارلحق کے اور عدم موجودگی میں ہم تو جانے سیدھی بات صابن ہو تو سات سو سات کے فارمولے پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں قارئین کرام وزیراعظم چوہدری انوارلحق نے بیوروکریسی کو کافی حد تک راہ راست پر لایا بائیو میٹرک سسٹم پر توجہ مرکوز کی درس قرآن کو ماہوار لازمی قرار دیا اور رپورٹ بھی طلب کی نصف صدی سے پروٹوکول کا لاحقہ عارضہ سے نہ چاہتے ہوئے جان خاصی حد تک چھڑائی جناب وزیراعظم عام آدمی کو آپکی انقلابی کتابی اصلاحات کے ثمرات اس وقت پہنچ سکتے ہیں جب تھانوں ،پٹوارخانوں کے فرسودہ نظام سے انکی جان نجات حاصل کرے گی کرنے والے کاموں میں لارڈ میکالے کے نظام تعلیم پر کاری ضرب لگانے کیلئے یکساں نصاب تعلیم نافذ کیا جانا تفاوت میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے اس وقت تک تیرھویں آئینی ترمیم کے بعد کابینہ میں توسیع تو قابلِ برداشت عمل ہو گیا تھا مگر محکموں کی وزرائے کرام میں تقسیم کی غیر ضروری طوالت کو قوت فیصلہ کی مجرمانہ غفلت سے تعبیر کیا جارہا ہے وجوہات کچھ بھی ہوں مخالفین کے دلائل میں وزن بڑھ جاتا ہے جن قائدین کا تذکرہ کیا گیا وہ سیاسی ریاضت کے ساتھ عوام سے سامنے آئے تھے اور انوار الحق کرم الہی کے بااختیار قوتوں کی آشیرباد سے اقتدار کا سنگھاسن اپنے سر سجانے پر سرخرو ہوئے تاہم بادشاہ گری کا اعزاز اب بھی پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما دوستوں کے دوست ،دشنمنوں کا آخری سانس تک تعاقب کرنے کا مصمم ارادہ رکھنے والے چوہدری ریاض کا کردار ناقابل فراموش ہے کابینہ میں محکموں کی تقسیم کے بعد وزیراعظم چوہدری انوارلحق کے ارد گرد سیاسی بارودی سرنگوں کا جال بچھایا جانا فطری عمل ہے وزیراعظم چوہدری انوارلحق کے برادر اکبر سے متعلق ایک قومی میڈیا ادارے اور متعدد غیر ملکی اداروں سے منسلک ساکھ رکھنے والے عامل صحافی امیر الدین مغل کی تحقیقاتی رپورٹ عصر حاضر کا سب سے سوالیہ نشان ہے اور ابھی تک احتسابی عمل بھی نہ شروع ہو سکا نہ احتساب بیورو کو با اختیار بنانے کیلئے ترامیم لائ گئیں اگر بہت مثالی فیصلہ عجلت میں عوام کیلئے پروانہ موت کا روپ دھار چکا ہے سبز درختوں پر پابندی عین اسلامی تعلیمات کے مطابق اور آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل کی خاطر جسم اور روح کی ماند ہے,مگر سوال یہ ہے کہ لیپہ ویلی ،نیلم ویلی ،فاروڈ کہوٹہ ،ہجیرہ ،سمیت لائن آف کنٹرول کے چودہ حلقوں کے لاکھوں عوام کو پروانہ موت جیسی اضطرابی کیفیت سے دوچا کر رکھا ہے اور عوام آئے روز سراپا احتجاج ہیں اور وفاقی نگران حکومت نے اقتدار سنبھالنے پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ نگران وزیراعظم انوارلحق کاکڑ جونئیر نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر کے مہنگائی کی چکی میں پستی عوام پر ایک اور معاشی خود کش دھماکا کر دیا ہے جسکی وجہ سے پسے ہوئے طبقات کی سانسیں حلق میں اٹک چکی ہیں اسی تسلسل میں چوھدری انوار الحق سینئر نے آٹے پر سبسڈی ختم کرنے کا عندیہ دیکر عالم نزع کا ماحول پیدا کر دیا تب ہی بر موقع یہ شعر صادق آتا ہے جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ،اس دور کے شاہ سے کوئی بھول ہوئی ہے اور قارئین ساتھ ہی بجلی فی یونٹ لگ بھگ پچاس روپے کا رونا الگ رویا جارہا ہے یہ رپورٹ جو قومی اور عالمی میڈیا سے منسلک اچھی شہرت اور معتبر ساکھ کے حامل سینئر صحافی امیر الدین مغل نے شائع کر دی ہے جس میں بادشاہ سلامت کے برادر اکبر نیلم ویلی میں خالصہ سرکار الاٹ کروانے میں مصروف ہیں لوکل گورنمنٹ کے گزشتہ دس، پندرہ سالوں سے قومی وسائل کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کرنے کی مصدقہ اطلاعات پر معنی خیز خاموشی کا جواب بھی اہل اقتدار کے پاس ہے وزیراعظم چوہدری انوارلحق کے والد محترم نے طویل جدوجھد سے اپنے لوگوں کو سر اٹھانے کا موقع دیا اور قائد ملت چوہدری نور حسین مرحوم کا کردار بھی درخشندہ باب ہے لیکن وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے والد محترم چوہدری صحبت علی کی حکمت عملی اور چوہدری نور حسین کی قوت فیصلہ نے بیرسٹر سلطان محمود کو وزارت عظمیٰ تک پہنچایا وزیراعظم چوہدری انوارلحق کا ابھی تک تحریک آزادی کشمیر کے اصل تقاضوں کی طرف دھیان ہی نہیں گیا وزیراعظم چوہدری انوارلحق نید سے بہت پیار کرتے ہیں جو انکے پیش رو وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی ناکامی اور بدنامی کی وجہ بنی پوچھنے والے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں کہ انکے خواب غفلت کی داستانیں زبان زد عام و خاص ہیں انوارلحق اچھی شہرتِ رکھنے کے باوجود گناہ بے لذت کے مرتکب کیوں ہو رہےہیں ؟ یا پھر بقول بابا بھلے شاہ ۔۔چل بلھیا آتھے چلیئے جتھے وسنڑ عقل دے اندھے ۔
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑیں نہ کوئی سانوں منیں.
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔