سفر نامہ۔۔۔ دو آوارہ گرد۔۔۔ میرپور سے وادی کشن گنگا
قسط نمبر ــــــــــ 01
ساجدمنان گُریزیؔ و شعیب علی جموال
جنت نظیر وادی جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے بیچ کرہ ارض پر ایک جنت جسے لوگ نیلم ویلی (قدیم نام وادی کشن گنگا) کے نام سے پکارتے ہیں اس نیلم ویلی کے ان بہت سی خوبصورت ویلیز ہیں مگر گُریز ویلی اِس جنت کا دل ہے اور اِس دل کے اندر ایک سب سے اہم گوشہ ہے جسے پھولاوئی کہتے ہیں( یعنی پھولوں کی سرزمین The Land Of Flowers ) اور میں نے اس پھولوں کی جنت کو دیکھنے کے لیے بڑا طویل عرصہ انتظار میں گزارا یوں تو پورا جموں کشمیر واقصائے تبتہا ایک جنت ہے مگر جنت میں اک خاص مقام پھولاوائی وادی گُریز ہے.کافی دوستوں کی خواہش تھی کہ ہم سفر نامہ لکھیں میں سفر نامہ لکھنے سے قاصر تھا کیوں کے سابقہ سفر ناموں میں لوگوں کی عدم دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی.پھر بھی چند ایک مخلص لوگوں کی خواہش تھی اور لکھنا شروع کر دیا.بڑی عید پر کشمیر رائیڈرز کلب میرپور کی طرف سے ایک میٹنگ ہوئی جس میں عید کے تیسرے روز وادی نیلم کی طرف نکلنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا چونکہ میں زیادہ دور نکلنا چاہتا تھا اور سہی وقت کا منتظر تھا اِس لیے میں نے 23 جولائی کو نکلنے کا کہا کہ میں 23 کو جاؤں گا باقی دوستوں کی چھٹیوں کا مسلہ تھا اِس لیے وہ عید کے 3 دن نکل گئے.22 جولائی کو میرے دوست ساجد منان گُریزیؔ صاحب ( جن کا تعلق پھولاوائی وادی گُریز سے ہے) پڑوسی ملک پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے میرے پاس پہنچے شام کو ہم لوگ میرپور غلام مبارک ہوٹل پر بیٹھے جہاں کشمیر رائیڈرز کلب میرپور کے تمام ممبر بیٹھے ہوئے تھے میں نے دعوت عام دی کے کوئی دوست چلنا چاہتا ہے تو صبح چلے مگر کچھ مصروفیات کی وجہ سے دوست نہ چل سکے اور پھر ہم 23 جولائی 2022 صبح 8 بجے تک ایک ( کوڑےبندے کا انتظار کرتے رہے ) اور بلا آخر 8 بجے گھر سے روانہ ہو گئے ابھی چکسواری پہنچے تھے کے بارش نے آ کر ویلکم کیا اور ہم تھے کہ پہلے سے ہے بندوبست کیئے بیٹھے تھے ہم نے رین سوٹ پہنے شوز کور پہنے اور نکل پڑے کوٹلی سے ہمارے نظریاتی دوست فیاض بھٹ صاحب مسلسل رابطے میں تھے 2 گھنٹے بعد ہم کوٹلی پہنچے بارش تھم چکی تھی ہم نے موٹر سائیکل کوٹلی اڈے میں سڑک کے ایک طرف کھڑا کیا اور فیاض صاحب کا انتظار کرنے لگے تھوڑی دیر میں فیاض صاحب پہنچے اور ہمیں گھر لے جانے کی ضد کرنے لگے جس پر وقت کی کمی ہونے کی وجہ سے ہم نے معذرت کرتے ہوئے وہیں ہوٹل پر ہی بیٹھنے کا اتفاق کیا ناشتہ کرنے کے بعد ہم وہاں سے پھر قاسم کامریڈ صاحب کی دوکان کی طرف نکل گئے کیوں کے وہ بڑے وقت سے گلے شکوے کر رہے تھے کہ آپ ملے بنا چلے جاتے ہیں وہ ٹال مٹول ہوٹل پر ہمارا انتظار کر رہے تھے وہاں اِن سے ملاقات ہوئی اور کچھ وقت نشت کے بعد ہم نے محفل سے اجازت طلب کی اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کر کے آگے نکل آئے فیاض صاحب دریائے پونچھ کے دوسرے کنارے تک ہمارے ساتھ آئے( جہاں سے تتہ پانی کراس شروع ہوتا ہے) وہاں کچھ فوٹو سیشن کے بعد ہم انہیں الودع کہہ کر تتہ پانی کی طرف نکل پڑے یہ راستہ میرے لیے تو پرانا تھا مگر ساجد گُریزیؔ صاحب اِس پر پہلی دفعہ سفر کر رہے تھے……………….جاری ہے