حکومت کی قرضہ پالیسی پرڈاکٹڑعتیق الرحمن کا مضمون
تحریر:ڈاکٹرعتیق الرحمن
یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر
ستمبر کے وسط میں ہونے والے قرض کے لکاروبار میں حکومت نے قلیل مدتی قرض کی تمام پیشکشیں مسترد کر دیں کیونکہ بینک اس قرض پر 17فیصد یا اس سے زیادہ سود طلب کر رہے تھے۔ اکتوبر کے شروع میں بینکوں نے اپنی پیشکشوں کو 14فیصدتک کم کر لیا، لیکن حکومت نے مزید احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین ماہ کے ٹریژری بلز کی تمام پیشکشیں مسترد کر دیں۔ حکومت کی جانب سے صرف دو سیشنز میں قرض نہ لینے سے تجارتی بینک سخت مشکلات کا شکار ہو گئے۔ مثال کے طور پر، حبیب بینک کے پاس2 ٹریلین روپے کی رقم بے کار پڑی ہے، لیکن انہیں کوئی بڑا کلائنٹ دستیاب نہیں جسے وہ قرض دے کر سود کما سکیں۔
یہ فوری تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ بینکوں کا گھمنڈ بنیادی طور پر حکومت کی طرف سے قرضے لینے پر منحصر تھا۔ جب حکومت نے تجارتی بینکوں سے قرض لینا عارضی طور پر روک دیا تو بینکوں کا رویہ یکدم بدل گیا۔ اب یہ بینک نجی کلائنٹس کی تلاش میں ہیں، لیکن قرض لینے والے بہت کم ہیں۔ سمجھدار قرض لینے والے جانتے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں شرح سود میں مزید کمی متوقع ہے، اس لیے وہ فی الحال قرض لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، بینک ماضی میں زیادہ تر قرض گاڑیوں کی فنانسنگ کے لیے دیا کرتے تھے، لیکن اب کار ساز کمپنیاں خود اقساط پر گاڑیاں دے رہی ہیں، اور کچھ تو بغیر سود کے بھی فراہم کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بینکوں کے پاس سیکڑوں ارب روپے کی رقم بے کار پڑی ہے۔
دسمبر سے پہلے حکومت کو کچھ قرض واپس کرنے ہیں، جس کے لیے اسے نئے قرضے درکار ہوں گے۔ مکمل مالیاتی خودمختاری کی صورت میں حکومت کچھ مہینوں کے لیے صرف اسٹیٹ بینک سے قرض لے سکتی تھی اور تجارتی بینکوں کو نظرانداز کر سکتی تھی، لیکن حالیہ قانون سازی کے بعد اسٹیٹ بینک سے قرض لینا ممنوع قرار دیا جا چکا ہے، جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا۔ ادھر آئی ایم ایف کے کارندے گیتا گوپی ناتھ کی قیادت میں مالیاتی اقدامات کی بہت باریک بینی سے نگرانی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا آپشن تقریباً ختم ہو چکا ہے، لیکن حکومت کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کم سے کم قرض لینے کی پالیسی اپنا لے، جس سے مارکیٹ کی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اگر حکومت عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرضے صرف انتہائی ضروریات تک محدود رکھے تو دسمبر سے پہلے شرح سود سنگل ڈیجٹ میں آ سکتی ہے، اور یہ کاروبار اور عوام دونوں کے لیے بہت بڑی راحت ہوگی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت کا وزیر خزانہ، جو خود ایک سابق بینکر ہے، کتنا آگے جا کر اپنی سابقہ انڈسٹری کے مفادات پر سمجھوتہ کر سکتا ہے؟
فی الحال، بینکوں کے پاس بے تحاشا فنڈز موجود ہیں اور یہ بینکنگ کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے ممکنہ جرمانوں کا خطرہ بھی ہے۔ اگر کسی بینک کا ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو ایک خاص حد سے نیچے آتی ہے تو اسٹیٹ بینک بھاری جرمانے عائد کر سکتا ہے۔ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو ایک اہم پیمانہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بینکوں نے اپنی جمع شدہ رقوم کا کتنا حصہ قرضوں کے طور پر دیا ہے۔ اگر یہ تناسب کم ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بینک جمع شدہ رقوم کو روک رہے ہیں، جسے اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں ناکامی سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف بینکوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت موجودہ شرح سود پر کوئی قرض لینے کو تیار نہیں ہے۔
اگر حکومت آئندہ دو مہینے تک تجارتی بینکوں سے قرض نہ لے تو یہ ممکن ہے کہ بینک کاروبار کے لئے شرح سود کو 8 فیصد تک کم کر دیں تاکہ وہ قرض لینے والوں کو راغب کر سکیں۔ لیکن اس حکمت عملی کے ساتھ ایک خطرہ بھی موجود ہے۔ انتہائی کم شرح سود والے قرض لوگوں کو غیر ضروری پرتعیش خریداری کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو گا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا اور روپے کی قدر میں کمی کا خدشہ ہو گا۔ روپے کی قدر میں نمایاں کمی مزید افراط زر کا سبب بن سکتی ہے۔ لہٰذا، جہاں کم شرح سود قرض لینے کو بڑھاوا دے سکتی ہے، وہیں اس سے تجارتی خسارے میں اضافے کا بھی خطرہ ہے۔
ان خطرات کے پیش نظر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو دانشمندی سے کام لینا ہو گا اور اپنے ریگولیٹری اختیارات کو صحیح طور پر استعمال کرنا ہو گا۔ ایک مؤثر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک تجارتی بینکوں کے لیے پروڈنشل ریگولیشنزprudential regulations جاری کرے اور انہیں ہدایات دے کہ وہ قرضوں کو کیسے تقسیم کریں۔ میری تجویز یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک تجارتی بینکوں کو یہ ہدایت جاری کرے کہ کنزیومر کو دیے جانے والے قرضے کل قرضوں کا 15 فیصد سے زیادہ نہ ہوں اور ان پر سود کی کم از کم شرح کائبور +8 ہو۔ اس سے غیر ضروری پرتعیش اشیاء کی خریداری کو محدود کرنے میں مدد ملے گی، جو افراط زر میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔
اسی طرح، کاروباری قرضوں کے لیے اسٹیٹ بینک یہ ہدایات جاری کر سکتا ہے کہ ان پر سود کی شرح کائبور +4 سے زیادہ نہ ہو اور کل قرضوں کا کم از کم 30 فیصد کاروباری مقاصد کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح کاروباری قرضوں کو صارفین کے قرضوں پر ترجیح دی جائے گی۔ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے سے مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو گا، جس سے اشیاء اور خدمات کی فراہمی میں اضافہ ہو گا اور افراط زر پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
موجودہ معاشی حالات فوری اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ حکومت کو قرضے کم سے کم لینے چاہئیں تاکہ بینک نجی شعبے کو قرض دینے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ہی، اسٹیٹ بینک کو کاروباری قرضوں کو آسان بنانے کے لیے اپنے ریگولیشنز کا دانشمندانہ استعمال کرنا چاہئے۔ اگر حکومت ان اقدامات پر عمل کرتی ہے تو رواں مالی سال میں اندرون ملک قرضوں پر سود کی ادائیگی 8700 ارب روپے کے بجائے 7000 ارب روپے تک محدود ہو سکتی ہے اور افراط زر 5 سے 7 فیصد کے درمیان مستحکم ہو سکتا ہے۔
تاہم اگر حکومت نے ذمہ داری سے کام نہ لیا اور بھاری قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا، تو بینکوں کا کاروبار حسب سابق چمکتا رہے گا اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔