افغان شہری کی جموں کشمیر شہریت کیلئے درخواست عدالت سے مسترد۔

شئر کریں

راولاکوٹ(کی نیوز)

راولاکوٹ کی سینئر سول جج کی عدالت نے 13سال سے جاری مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک افغانی شہری کی طرف سے جموں کشمیر کی شہریت کے حصول کیلئے دی گئی درخواست مسترد کر دی ہے۔

یہ فیصلہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں سینئر سول جج حافظ محمد عمران وزیر نے سنا یا۔

راولاکوٹ میں کئی قسم کے کاروبار کرنے والا افسر خان نامی افغان شہری نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کا والد 1947 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بننے والی حکومت کے پہلے صدر سردار ابراہیم خان کا باڈی گارڈ تھا اس حوالے سے سردار ابراہیم خان کی طرف سے دی گئی تصدیق پیش کی گئی تھی سابق سپیکر سردار غلام صادق مرحوم کی تصدیق میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ کی تصدیق اور بورڈ آف ریونیو کا اجازت نامے کے علاوہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ کریکٹر سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات بھی پیس کی گئی تھی۔

افغان شہری کی طرف جاوید نثار ایڈووکیٹ اور سردار افتخار ایڈووکیٹ کیس کی پیروی کی جبکہ مقامی سول سوسائٹی کی جانب سے سردار شمشاد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیا ہے جس کا تیرہ سال کے بعد فیصلہ سنایا گیا ہے جبکہ اسی نوعیت کے کیس مختلف علاقوں میں زیر کار ہیں عدالت کے اس فیصلے کو ایسے کیسوں میں مثال بنایا جا سکتا ہے۔

منقسم اور متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے آئین اور قانون کےمطابق کوئی بھی غیر ریاستی شہری ریاست جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان ،جموں لداغ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جسے آزادکشمیر بھی کہا جاتا ہے کسی بھی علاقے میں زمین نہیں خرید سکتا نا ہی اس کو ریاست کی مستقل شہریت مل سکتی ہے۔

لیکن 5 اگست 2019 کو بھارت نے اپنے زیر انتطام متنازعہ ریاست جموں کشمیر میں عالمی قوانین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت کے آئین کے خلاف جموں کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کیلئے ففعہ 370 اور 35A کو ختم کر دیا تھا۔

گلگت بلتستان میں ستر کی دھائی میں سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون معطل کر دیا گیا تھا جس کے بعد گلگت بلتستان سے باہر کے لوگ یہاں زمین خرید سکتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کی متنازعہ حثیت برقرار ہے البتہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی باز گشت بھی وقتاً فوقتاً سنائی دیتی ہے۔

اب 1947 میں ریاست جموں کشمیر کی تقسیم سے قبل کا قانون کسی نا کسی شکل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں باقی رہ گیا ہے تاہم بعض اوقات جعل سازی سے غیر ریاستی لوگوں کی طرف جعلی سٹیٹ سبجیکٹ بنانے اور زمینیں خریدنے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔

مظفرآباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر طاہر کھوکھر کی طرف سے بھی ایک ایسا ہی مقدمہ دائر کیا گیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے پانچ اراکین اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے جعل سازی کرکے جموں کشمیر کا باشندہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا پے اسمبلی کا انتخاب میں حصہ لیکر رکن اسمبلی اور وزیر بنے ہیں لہذا مذکورہ اراکین اسمبلی کو نا اہل قرار دیا جائے۔


شئر کریں

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے