AJK Election Commission

آپ..نہیں۔۔آپ۔۔۔نہیں جی آپ..۔آپ جناب.

شئر کریں

تحریر: عبدالحکیم کشمیری
بلدیاتی انتخابات خط وکتابت کی بھینٹ چڑھانے کا خوبصورت انداز۔ ۔۔۔۔
سیکورٹی فورسز مہیا کرنے کی زمہ دار حکومت آزاد کشمیر ضرور ہے لیکن حکومت پاکستان اگر سیکورٹی فورسز نہ دے تو آزاد کشمیر حکومت کچھ نہیں کرسکتی ۔
دراصل بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اب ہر ایک پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے ۔حکومت آزاد کشمیر کو جب اسلام آباد سے سیکورٹی فورسز کی فراہمی میں انکار ہو گیا تو اسے فوراً یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانا چاہیے تھا کہ یہ صورتحال ہے اب کیا کیا جائے ۔ ظاہر ہے حکومت پاکستان ہماری سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔لیکن افسوس حکومت آزاد کشمیر نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر خط وکتابت شروع کر دی ۔وزیر اعظم تنویر الیاس نے جس اعتماد سے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اپوزیشن کو چاروں شانے چت کیا وہ گرچہ لاجواب سیاسی چوکا ہے لیکن دستیاب نظام کے مطابق انھوں نے عوام کو اپوزیشن کی طرح احمق سمجھا ۔

رہی بات اپوزیشن کی میں یقین کامل اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہتا ہوں حکومت پاکستان کی طرف سے سیکورٹی فورسز مہیا نہ کرنے کی بنیادی وجہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہیں ۔
اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کا کردار اس مختصر ویڈیو کے اسکرپٹ کی طرح ہے جس میں ختنے سے بچنے کے لیے بچہ کہتا ہے میں پہلے نہاوں گا پھر ختنہ کراؤں گا۔
ڈویژن وائز انکار ۔کے پی کے اور پنجاب کی سیکورٹی کا انکار صرف فوج کی نگرانی میں الیکشن کا مطالبہ ۔
اپوزیشن اور حکومت کے ایم ایل اے کلب کو دو چیزوں کو خوف تھا ایک سپریم کورٹ کے احکامات اور دوسرا عوامی حمایت سے محرومی کا سو ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔کمزور ترین الیکشن کمیشن اپنے ہی جاری کیے گے قواعدو ضوابط پر عمل کروانے میں بری طرح ناکام رہا۔وزیراعظم اور وزراء اربوں کے اعلان کرتے رہے ۔
یوں سارا عمل محلے میں کھیلے جانے والے گلی ڈنڈے کے کھیل کی طرح نظر آیا
حکومت آزاد کشمیر کے پاس الیکشن کروانے کا واحد آپشن QRF
کویک رسپانس فورس ہے ۔
یعنی ایک ایسی فورس جو اہم مرکزی شاہرات پر الیکشن کے دن گشت کرے گی اور گڑ بڑ کی اطلاع ملنے پر ہنگامی بنیادوں پر جائے وقوعہ پر پہنچے گی ۔اطلاع ہے حکومت اس طریقہ کار پر عمل کرنے کا سوچ رہی ہے ۔
اگر یہ نہ ہوا تو کیا ہوگا ؟ گرچہ ایک دو یوم میں منظرنامہ ہمارے سامنے ہوگا۔
لیکن ایک آپشن مزید ہے
عدالت عظمٰی سے حکومت استدعا کرےگی اپنے کندھوں کا بوجھ اور عوامی غم وغصہ بھی عدالت پر ڈالنے کی کوشش کرے گی اور اس کے بعد 2023 میں اہم ایل اے کلب کے 32 سال پورے ہو جائیں گے ۔


شئر کریں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *