آزادی کے بعد حوالہ ہے۔۔۔
تحریر: اظہر مشتاق، کینیڈا
دانش ارشاد سے میرا تعلق آئی بی سی اردو اور ایکسپریس میگزین میں لکھے ان کے مضامین کی وجہ سے بنا ، ان کے مضامین مکمل تحقیق اور مشاہدے کے عکاس ہوتے تھے۔ دانش ارشاد کا مضامین کا اظہار سادہ اور الفاظ کا چناؤ عام فہم ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتا ہے ۔ دانش سے سماجی رابطوں کا تعلق ، فون نمبر کے تبادلے اور چند ایک ملاقاتوں تک محدود ہے لیکن میرے نزدیک ان کی ساکھ اتنی اہم ہیکہ کسی بھی تاریخی حوالے کے سچ یا جھوٹ ہونے کی پرکھ کے لئے سب سے اہم رائے دانش ارشاد سے لینا میری اولین ترجیح ہوتی ہے ۔ دانش ارشاد کی کتاب ‘آزادی ‘کے بعد کا موضوع اس کتاب کے نام سے ہی اظہر من الشمس ہے کہ ایک خاص خطے کی آزادی کتنی آزادی ہے اور اس خطے میں رہنے والے عوام کتنے آزاد ہیں ۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور اس کے سیاسی سفر پر ماضی قریب یا حال میں لکھی جانے والی کتب شاید دو متضاد بیانیوں کی آبیاری کرتی رہی ہیں ۔ متعدد کتب یا تو خالص سرکاری بیانئے کی توجیح پیش کرتی ہیں اور یا سیز فائر لائین کے اُس طرف بھارتی زیر قبضہ جموں کشمیر کے عوام کے مصائب اور مسئلہ جموں کشمیر کا حل پیش کرنے کی سعی کرتی رہی ہیں اور ان کتب کو تصنیف فرمانے والے مصنفین کیآراء ایک طرح کے نظریاتی تعصب کے زیر اثر نظرآتی رہیں۔ ‘آزادی ‘کے بعد کے پیش لفظ سے لیکر آخری باب تک دانش ارشاد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاسی اونچ نیچ کو بالواسطہ یا بلاواسطہ انہی مقامی یا بین الاقوامی قوتوں سے جوڑتے نظر آئے جو اس سیاسی اونچ نیچ سے مادی فوائد کشید کرتی رہیں ۔ ‘آزادی’ کے بعد کو اگر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سیاسی اتار چڑھاؤ کی تاریخ کی زمانی ترتیب کا مقالہ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہو گا ۔دانش ارشاد نے انتہائی عرق ریزی سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے آئینی ارتقاء ، ووٹ کے حق کی تاریخ ، مختلف معائدہ جات ، ان معائدہ جات کے ریاستی عوام اور مسئلہ جموں کشمیر پر اثرات کی تدوین کر کے قارئین کے سامنے رکھا ہے۔
چھے ابواب پر مشتمل “آزادی کے بعد” میں دانش ارشاد نے ۱۹۴۷ سے لیکر ۲۰۲۴ کی عوامی تحریکوں ، سیاسی ریشہ دوانیوں ، سیاسی و مادی فوائد کے حصول کے لئے غیر معقول فیصلے کرنے والے سیاسی قائدین کے کردار کو حوالہ جات کے ساتھ کھنگال کے رکھا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے پہلے دس سال میں مصنف نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جاری بغاوت کے پس منظر کو بیان کئے بغیر قبائلی یلغار کو موضوع بناتے ہوئے 4 اکتوبر 1947 کی حکومت اور پھر 24 اکتوبر 1947 کی عبوری حکومت کو پر بحث کی ۔ 4 اکتوبر 1947 کی قائم کی گئے حکومت کے ایک فرضی نام “انور ” کے بارے میں بحث یہ بتاتی ہیکہ 4 اکتوبر 1947 کی حکومت بھی شاید 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کی طرح ہی کی تھی یا شاید اس حکومت کے بنانے میں پاکستانی حکومت یا پاکستان کے اندر طاقت کے مراکز کی سو فیصد مرضی و منشاء شامل نہیں تھی۔ 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کے قیام کی سب سے دلچسپ واقع سردار محمد ابراہیم خان کے حوالے سے ہے کہ انہیں 23 اکتوبر کی رات کے آخری پہر کمشنر راولپنڈی خواجہ عبدالرحیم اور جنرل اکبر کی اہلیہ نسیم شاہ نواز نے نیند سے بیدار کر کے بتایا کہ کشمیر میں حکومت کا قیام ناگزیر ہو چکا اور سردار محمد ابراہیم خان اس کے لئے موزوں ترین ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 24 اکتوبر کی حکومت کے قیام پر مسلم کانفرنس کی قیادت خوش نہیں تھی۔ پہلے باب نے مصنف نے عبوری حکومت کے اعلامئے، چوہدری غلام عباس کے سیاسی کردار، سردار ابراہیم خان کی سلامتی کونسل میں روانگی، سردار ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس کی چپقلش ، مسلم کانفرنس کی فنڈنگ اور اعزازیے کی وصولی، مشتاق گورمانی کے کردار ، معائدہ کراچی ، پونچھ کی بغاوت ، پاکستان کی فوج کشی، پاکستانی زیر انتظام میں جمہوری حکومت کے قیام کے مطالبے، پونچھ کی دوسری بغاوت کے ساتھ ساتھ سردار ابراہیم خان کے دوسرے دور صدارت کا احاطہ کیا ہے۔ مصنف ان تمام واقعات کو تاریخی حوالوں کے ساتھ قلمبند کرتے ہوئے جب اپنا تبصرہ کرتے ہیں تو کہیں بھی یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ ان واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے کہیں روائیتی ، سیاسی یا نظریاتی تعصب کا شکار ہوئے ہیں یا ان کا تبصرہ تعصب پر مبنی ہے، وہ لکھتے ہیں؛
” یوں 5 سال کی دو تحریکوں میں عوامی کی قربانیاں کسی کی بھینٹ چڑھ گئیں اور عوام کو ووٹ کا حق ملا نہ نہ جمہوریت قائم ہو سکی، بلکہ اس کے کچھ عرصے بعد پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اس طرح جون 1947 میں شخصی حکمرانی کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک سے شروع ہونیوالی سماجی بغاوت مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے بالآخر کچلی گئ”۔
مصنف پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اقتدار کی کشمکش میں مصروف عمل سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں کو مقامی اشرافیہ کہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے موقع پرستانہ رویوں، اپنے سیاسی و مادی فوائد کے حصول، تحریکوں سے غداری اور مصلحت پسندانہ رویوں کی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک نئے نوآبادیاتی قبضے کو تقویت ملی۔
دوسرے باب میں مصنف نے کشمیر لبریشن موومنٹ کو موضوع بنایا ہے اور کشمیر لبریشن موومنٹ کےسارے واقعات اس ترتیب سے قلمبند کئے گئے ہیں قاری کو کشمیر لبریشن موومنٹ کے کرداروں اور اس دوران کی گئی سنجیدہ کوششوں کے بارے میں رائ قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس باب کی سب سے دلچسپ بات یہ ہیکہ مصنف باب کے ابتدائیے میں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ 50 کی دہائی کے آغاز میں پاکستانی ریاست نے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے اس خطے میں انتظامی ہلچل اور پراکسی نوعیت کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی نئی نسل بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں پاکستانی پراکسی کو اسی کی دہائی سے زیر بحث لاتے ہیں لیکن مصنف کے نزدیک اس کی کوششیں پچاس کی دہائی سے شروع ہو گئی تھیں۔
مصنف نے کشمیر لبریشن موومنٹ کے دوران انتظامی افسران اور سیاستدانوں کی تحریروں کو زیر بحث لاتے ہوئےاس تحریک کا غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا ہے اور وہ یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ کشمیر لبریشن موومنٹ کا مدعا و مقصد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی آزادی یا حد متارکہ کی دوسری جانب اس تحریک کو منظم کرنا نہیں تھا بلکہ مسلم کانفرنس کی قیادت اس تحریک کے ذریعے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اپنے آپ کو زیادہ موزوں رکھنے کے قابل ہوئی۔ مصنف اس تحریک کے اختتام کو پاکستان میں ایوب خان کے مارشل لاء اور تحریک کے بانیان کی بدنیتی کو قرار دیتے ہیں ، جس کا اقرار پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر کے سابقہ انسپکٹر پولیس راؤ رشیدنے بھی کیا ہے۔
پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر میں ووٹ کے حق ، کے ایچ خورشید کے آزادکشمیر حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کے مطالبے پر چین اور الجیریا کی جانب سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کو تسلیم کرنے کے اعلانات اہم دستاویزی بیانات ہیں ۔ مصنف نے تمام واقعات اور تمام سیاسی پیش قدمیوں کو نہایت مہارت سے نقل کیا ہے ۔پہلی جمہوری حکومت کے قیام سے ایکٹ 1974 تک کے واقعات کا تسلسل قاری کو کتاب کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے ۔
‘آزادی’ کے بعد کا سب سے اہم باب سندھ طاس معائدے (1960) کے متعلق ہے، اہم بات یہ ہیکہ سندھ طاس معائدے کے متعلق آج تک کسی بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مصنف نے اتنی تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی ، اس باب میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ 1960 میں سندھ طاس معائدے کی صورت میں پاکستان اور بھارت تقسیم ریاست جموں کشمیر پر رضامند ہو چکے تھے ، مصنف سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معائدے کی کوئی بھی ایسی ضمنی شق تک نہیں رکھی گئی کہ جس میں یہ امید تک ظاہر کی گئی ہو کہ اس مسئلے کے تصفیہ کی صورت میں جہلم ، چناب اور سندھ پر ریاست جموں کشمیر کا حق کیسے ہوگا؟
انتہائی اہم بات یہ ہیکہ 1960 میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے منتظم خورشید حسن خورشید تھے اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قوم پرست کارکنان انہیں قوم پرستی کا استعارہ سمجھتے ہیں لیکن سندھ طاس معائدے کے وقت خورشید حسن خورشید ، غلام محمد بخشی اور گلگت بلتستان کی قیادت پانیوں کے استعمال کے بارے میں اپنے آبی حقوق سے بے بہرہ نکلی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اگر تینوں منقسم حصوں کی حکومتیں دریائے جہلم، سندھ یا چناب پر کوئی آبی منصوبہ لگانے کی کوشش کرتی ہیں تو انہیں دہلی اور اسلام آباد سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
مصنف نے نہ صرف سندھ طاس معائدے پر ایوب خان کے آمرانہ موقف کو نقل کیا ہے بلکہ اس باب میں انہوں نےیہ رقم کیا ہیکہ سندھ طاس معائدے میں بھارت کو انہی شرائط کی تعمیل کرنی پڑ رہی ہے جو بھارت چاہتا تھا، مصنف نے مختلف حوالہ جات کے ساتھ پاکستان کی سبکی کوواضع کیا ہے۔
اسی باب میں مصنف نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں پن بجلی کی حقیقی صلاحیت اور اس معائدے کی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ماحولیاتی اور اقتصادی مضمرات کا احاطہ کیا ہے اور وہ ایسا احاطہ ہے جو درست اعداد وشمار اور سائنسی حقائق پر مشتمل ہے۔ سندھ طاس معائدے اور آبی وسائل کے بارے میں مصنف کی دلچسپی اس امر سے واضع ہوتی ہیکہ انہوں نے پاکستان میں آبی امور و وسائل کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کی آراء کو بھی اس باب میں شامل کیا ہے۔
منگلاڈیم کی تعمیر کو مصنف نے سندھ طاس معائدے سے جوڑتے ہوئے اس کی تعمیر اور اس کی تعمیر کے خلاف تحریکوں کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے، منگلا ڈیم کی تعمیر کے ماحولیاتی مسائل کا بیان بھی نہایت اہم ہے جو سرکاری اور روائتی بیانات میں یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ منگلاڈیم کی کشادگی کی تحریک کو مصنف نے تحریک میں شامل لوگوں سے گفتگو کر کے قلمبند کیا ہے جس میں محمد عارف چوہدری اور عظیم دت ایڈوکیٹ کی گفتگو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے ساتھ مصنف نے اس سرکاری بیانئے اور فکری مغالطے کے خلاف تاریخی دلائل دئیے ہیں کہ برطانیہ میں آباد باشندگان میرپور کے برطانیہ جانے کہ وجہ منگلا ڈیم کی تعمیر تھی۔ مصنف نے تاریخی دستاویزات سے یہ ثابت کیا ہیکہ جہاز رانی سے وابستہ اہلیان میرپور کراچی سے مختلف سمندری جہازوں کے ساتھ یورپ اوربرطانیہ پہنچے اور کئی میرپوری یورپ میں بھی شعبہ جہاز رانی سے وابستہ ہوئے اور پھر وہاں مستقل سکونت اختیار کرتے ہوئےشہریت لے لی اور یہ سارا عمل منگلا ڈیم کی تعمیر سے پہلے ہوا۔
‘آزادی’ کے بعد کا آخری باب پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حالیہ عوامی تحریک اور اس کے پس منظر کے بارے میں ہے، مصنف نے اس حالیہ تحریک کے حقائق بھی من و عن بیان کیے ہیں۔ مصنف دانش ارشاد نے “آزادی کے بعد” کی تدوین و تالیف میں محنت شاقہ سے پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کے سیاسی عمل، مرکزی دھارے کے سیاستدانوں کےمختلف ادوار میں ذاتی مفادات کو ریاستی مفادات پر ترجیحات اور پاکستان میں جمہوری یا آمرانہ حاکموں کی خوشنودی کی تاریخ کو ایک لڑی میں پرویا ہے ، گو کہ اس کتاب کے آخر میں حوالہ جات کا پورا باب موجود ہے لیکن مستقبل میں جب بھی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے بارے میں تاریخی حقائق کے دستاویزی حوالے کے بارے میں سوال ہوگا ، دانش ارشاد کی ‘آزادی’ کے بعد کا حوالہ ضرور دیا جائے گا۔
مصنف کے بارے میں
تازہ ترین خبروں
- رائے02/04/2025یوم یکجہتی، خلوص نئیت کا جھول یا حکمت عملی کا فُقدان؟
- خبریں02/02/2025بھارت مسئلہ کشمیر مزاکرات سے حل نہیں کرے گا، حافظ نعیم الرحمن
- خبریں02/01/2025کنٹرول لائن پار کرنے والے نوجوان کو بھارت نے واپس کر دیا
- خبریں01/31/2025کشمیر، حکومت نے مساجد کو فری بجلی فراہمی کیلئے کروڑوں روپے جاری کر دیئے