بھارت، کینیڈامناقشہ اور خفیہ ایجنسیوں کے بیرون ملک آپریشن۔
افتخار گیلانی
نومبر 1984ء…. بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو انکے سکھ باڈی گارڈز نے امرتسر میں سکھ مذہب کے مقدس ترین مقام دربار صاحب پر فوج کشی کا حکم دینے کی پاداش میں قتل کردیا تھا۔ ہزاروں میل دور پیرس کے ایک کیفے میں بھارت کی خارجہ انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ یعنی ’’ را‘‘ کا ایک افسر سنجیو جندال سوچوں میں گم تھا۔اسکو یورپ میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کے سرخیلوں کی اور ان کی مد د کرنے والوں کی شناخت کرنے کے علاوہ ان کے خلاف ایک آپریشن شروع کرنے کی کمان سونپی گئی تھی۔ بھارتی صوبہ پنجاب میں حالات خاصے ابتر تھے۔ کیفے میں اپنے ایک مخبر کے ساتھ ملاقات کے بعد اس کو یقین ہوگیا تھا کہ بھارت کیلئے بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ کشمیر تو ابھی پر امن تھا، مگر لندن میں بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کا قتل اور پھر دہلی کی تہاڑ جیل میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے لیڈر مقبول بٹ کو پھانسی دینا ،سرینگر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ حکومت کی برطرفی، کچھ ایسے اشارات دے رہے تھے کہ پنجاب کے بعد کشمیر بھی بھارت کی سلامتی ایجنسیوں کیلئے چیلنج بننے والا تھا۔ فی الحال ان کی یونٹ کو پنجاب کی علیحدگی پسند تحریک یعنی خالصتان کے حامیوں کا قلع قمع کرنے کا کام دیا گیا تھا۔ اس طرح ’’آپریشن ہارنٹ‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ جو اگلے تین سال تک جاری رہا۔
اس آپریشن کے دوران تین ایسے افراد کا پتہ لگایا گیا، جو بیرون ملک خالصتان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ بی این سندھو، اوتار سنگھ سیٹھی اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری عبدل خان تھے۔ ان تینوں کے خلاف ثبوت وغیرہ تو اکھٹا کئے گئے تھے، مگر دہلی سے حکم آیا تھا کہ چونکہ برطانوی خفیہ ادارے بھی ان کی ٹوہ میں ہیں، اس لئے ان کو ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا پڑیگا۔ اگر ان کو لندن میں ہلاک کیا جاتا ہے، تو برطانوی ادارے ایک منٹ میںہی ان ہلاکتوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ جوڑدیتے۔ اسلئے سیٹھی اور بی این سندھو کے پیچھے دو خواتین کو لگایا گیا۔ یہ دونوں خواتین سوفی اور ہرپریت ، را کیلئے ہی کا م کرتی تھیں۔ سوفی نے سیٹھی کو امریکہ کا دورہ کرنے کیلئے اکسایا، جہاں سان فرانسسکو میں بھارتی ایجنٹوں نے اس کو اغوا کرکے ایک سیف ہاوس میں پہنچادیا، جہا ں نارائنن اور جندال پہلے ہی موجود تھے۔ چھ گھنٹے کے انٹروگیشن کے دوان اس نے ان کو کافی معلومات دی اور بھارتی ایجنسی کیلئے کام کرنے پر بھی رضامندی ظاہرکی ۔ وہ چونکہ بزنس مین تھا، اس کے کئی راز را کے ہاتھ لگ چکے تھے، جن سے اس کا کاروبار متاثر ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف ہرپریت کی مدد سے سندھو کو پنجاب جانے کیلئے آمادہ کروایا گیا۔ دسمبر 1986 کو اسکو نئی دہلی میں گرفتار کرکے اس کے نیٹ ورک کا قلع قمع کرد دیا گیا۔ اس سے قبل جون 1986 میں سیٹھی نے راکو ایک ٹیپ فراہم کی جس میں پنجاب میں مزید حملوں کو انجام دینے کے لیے فنڈنگ نیٹ ورک کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اب عبدل خان کی باری تھی۔ ایک پیچیدہ آپریش کے بعد اسکو لاہور جاکر اپنے والدین سے ملنے کی ترغیب دی گئی۔ مئی 1987 کو دو موٹر سائیکل سواروں نے خان کو لاہور میں اسکے آبائی گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کردیا۔ یہ ابن صفی یا مظہر کلیم کئ کسی جاسوسی ناول کے اقتباسات نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقی واقعات ہیں۔
گو کہ بھارت کے سابق اور ریٹائرڈ اہلکار اپنی کتابو ںمیں یا نجی محفلوں میںا کثر پاکستان میں اپنے کارنامے بیان کرکے بڑی واہ واہی لوٹتے ہیں، مگر مغربی ممالک میں اس طرح کے آپریشن پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اسکو تکبر یا ضرورت سے زیادہ خو د اعتمادی کہیں کہ شاید پہلی بار پچھلے دو سالوں سے بھارتی خفیہ اداروں نے مغربی ممالک خاص طور پر کینیڈامیں آپریشن شروع کرکے خالصتان کے حامی سکھوں کو مبینہ طور ہلاک کرنا شروع کردیا۔ جون 2023 میں، ہردیپ سنگھ نجار کو کینیڈا کے صوبہ برٹش کولمبیا میں قتل کر دیا گیا۔ اسکے بس ایک ہفتہ قبل ہی خالصتان کے ایک اور پرجوش حامی اور برطانیہ میں وارث پنجاب دے کے رہنما ہردیپ سنگھ کھنڈا برمنگھم میں پراسرار حالات میں انتقال کر گئے تھے۔مئی 2023 میں، خالصتان کے حامی پرمجیت سنگھ پنجوار کو لاہور، پاکستان میں قتل کر دیا گیا۔ 2022 میں روپندر سنگھ ملک کی سرے، کینیڈا میں پراسرار حالات میں موت ہو گئی۔ خالصتان کارکن سکھدول سنگھ عرف سکھا ڈون کو 20 ستمبر کو کینیڈا کے شہر ونی پیگ میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان میں کشمیری تحریک سے وابستہ افراد بشیر احمد پیرالمعروف امتیاز عالم، اعجاز احمد آہنگر، البدر کے سابق عسکری سید خالد رضا اور محمد ریاض المعروف قاسم کشمیری کو پراسرار حالات میں ہلاک کردیا گیا۔
بھارت میں ان ہلاکتوں پر بغلیں بجائی گئیں اس کو قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال کی دوبال ڈاکٹرین اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’گھر میں گھس کر مارنے‘‘ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے سے موسوم کیا گیا۔ پاکستان کی حد تک تو کون احتساب مانگنے یا چیخ و پکار کرتا، مگر کسی مغربی ملک میں اور پھر اسکے ہی شہری کو مارنا وہاں کی کسی خفیہ ایجنسی نہ کسی سیاستدان کے گلے اتر سکتا تھا۔ اسی لئے 80کی دہائی میں ہلاک یا بھارت مخالف عناصر کو بے اثر کرنے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال بچھا کر ان کو پہلے کسی دوسرے ملک میں جانے کی خفیہ ترغیب دیتی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نجار کی ہلاکت سے قبل یا اسکے فوراً بعد ہی کینیڈاکی خفیہ ایجنسیوں نے ٹوہ لینی شروع کر دی تھی اور اس سلسلے میں مبینہ طور پر بھارتی سفارتکاروں اور ان سے ملنے والوں کے فون ٹیپ کئے جار ہے تھے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈونے پارلیمنٹ کو بتایا کہ نجار کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے ”معتبر الزامات” ہیں۔اسی کے ساتھ ان کی حکومت نے کینیڈامیں راکے اسٹیشن سربراہ پون کمار رائے کو ناپسندیدہ شخص ڈیکلیر کرکے اس کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیا۔ جو سفارتی آداب میں سخت ترین قدم مانا جاتا ہے۔
ویسے تو بھارت اور کینیڈاکے درمیان ایک بڑا تنازعہ 2010 میں ہی شروع ہو گیا تھا جب کینیڈا نے جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے والے بھارتی سیکورٹی فورسز کو ویزا دینے سے انکار کرنا شروع کر دیا تھا۔کینیڈا نے یہ قدم ا سلئے اٹھانے کا فیصلہ کیا، جب یہ پتہ چلا کہ ایک فوجی افسر میجر اوتار سنگھ،جس پر 1996 میں ایک معروف کشمیری وکیل جلیل اندرابی کو قتل کرنے کا الزام ہے، کو بھارتی حکومت نے جعلی پاسپورٹ فراہم کرواکے کینیڈا جانے اور وہاں سیٹل ہونے میں مدد کی تھی۔ اس کے خلاف جموں و کشمیر کی ایک عدالت نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہوئے تھے اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کو پولیس کے حوالے کرکے تفتیش میں معاونت دے۔ اس جعلی پاسپورٹ پر ویزا دینے کے سلسلے میں بھارت میں کینیڈین ہائی کمیشن کا عملہ بھی کٹہرے میں تھا۔
چونکہ معاملہ ایک معروف وکیل کا تھا، اس لئے ریاستی ہائی کورٹ کی بنچ نے اوتار سنگھ کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے اس کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے احکامات صادر کر دیے تھے۔ لیکن اس سے قبل کہ پولیس اس کو گرفتار کرتی، وہ حکومت کی معاونت سے کینیڈا چلا گیا تھا۔ ان سے شرمندہ ہو کر نئی دہلی میں کینیڈین ہائی کمیشن نے کشمیر میں خدمات انجام دینے والے سیکورٹی فورسز کو ویزا کا اجرا روک دیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس قدم کے خلاف احتجاج کیا۔ وزارت خارجہ کو مزید غصہ تب آیا ، جب جون 2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ ٹورنٹو میں جی20 اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے ، تو ان کی سیکورٹی پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ (SPG) سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار کا ویزا رد کر دیا گیا۔ بھارت نے اس پر سخت اعتراض کیا، حتیٰ کہ جی۔20 سربراہی اجلاس سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی۔ مگر نئی دہلی میں کینیڈین ہائی کمیشن نے 2008 میں کینیڈین پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ ایک قانون کا حوالہ دیا، جس کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو ویزا دینے سے انکار کرنا لازمی قرار دیا گیا جس نے کسی ایسی تنظیم کے لیے کام کیا ہو، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہوئی ہو یا اس پر عدالت میں الزامات دائر کئے گئے ہوں۔
اسی دوران انڈین انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے دو ریٹائرڈ اہلکار ایس ایس سدھو اور ٹی ایس سرویا کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ فوجی افسران لیفٹیننٹ جنرل اے ایس باہیا اور لیفٹیننٹ جنرل او پی نندرا جوگ اور ریٹائرڈ بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ایک ہیڈ کانسٹبل فتح سنگھ کی ویزا درخواستیں رد کر دی گئیں۔ سرویا، جو پنجاب کے جالندھر میں آئی بی کے ڈپٹی سینٹرل انٹیلی جنس آفیسر کے طور پر 36 سال کی سروس کے بعد ریٹائر ہوئے تھے، کو 2008 میں کینیڈین امیگریشن اینڈ ریفیوجی پروٹیکشن ایکٹ کی دفعہ A34(1)(F) کے تحت وزیٹر ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا ۔ کینیڈاکے سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ اوتار سنگھ کے کیس کی وجہ سے ان کی سبکی ہوئی ہے۔اس کا کیس کچھ یوں تھا۔
فروری 1996 میں جب جلیل اندرابی جنیوا سے انسانی حقوق کی کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس سرینگر آگئے تھے، تو کچھ مسلح افراد نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ اس کی بیوی نے دروازہ کھولا اور ان سے بحث کرنے لگی۔ اندرابی نے اپنے مکان کی تیسری منزل سے چھپ کر ان کی اہلیہ کے ساتھ بحث کرنے والے افراد کی تصویریں لیں ۔ اگلے روز صبح سویرے وہ پہلی فلائٹ سے کیمرے سے لیس نئی دہلی روانہ ہوگئے اور اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان ، ان کے نائب راجیش پائلٹ اور پھر امریکی سفیر فرینک وایزنر سے ملاقاتیں کرکے تصویریں ان کے حوالے کردیں۔ ان سبھی مقتدر افراد نے ان کو یقین دلایا کہ ان کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کئے جائینگے اور جن افراد کی انہوں نے نشاندہی کی ہے ،کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔ چند روز کے بعد اندرابی ان تمام یقین دہانیوں کے ساتھ عید منانے کیلئے کشمیر لوٹ آئے۔مگر مارچ 1996 کو عید کے دن، جب وہ کسی عزیز سے ملنے کے بعد گاڑی میں واپس گھر آرہے تھے، تو اوتار سنگھ کی قیادت میں فوج کے دستے نے ان کو روک کر گرفتار یا اغوا کیا۔ ان کی اہلیہ اکیلے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گھر آپہنچی اور اگلے ہی دن کورٹ میں حبس بیجا کے تحت پیٹشن دائر کی۔
عدالت نے فوج کو اندرابی کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ مگر فوج کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی شخص انکے پاس نہیں ہے۔ اغوا کے 19 دن بعد 27 مارچ کو ان کی لاش دریائے جہلم سے ملی ۔ان کے سر اور دل میں گولیوں کے سوراخ تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ ہائیکورٹ نے ایک اسپیشل تفتیشی یونٹ بنانے کے احکامات صادر کئے، جس نے سری نگر کے راولپورہ کیمپ میں تعینات فوج کے میجر اوتار سنگھ کو ملزم قرار دیا اور کہا کہ جلیل اندرابی کی گرفتاری کا کام فوج کیلئے کام کرنے والے بندوق بردار سکندر گانی نے کیا تھا، جو اوتار سنگھ کے یونٹ کے ساتھ منسلک تھا۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا گانی کو پراسرار حالات میں ہلاک کردیا گیا ہے۔ اسپیشل پولیس ٹیم نے فوجی افسر پر آٹھ دیگرافراد کو بھی قتل کرنے کا الزام لگایا۔ جب یہ منظر عام پر آیا کہ سنگھ کینیڈا فرار ہوگیا ہے، سری نگر کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ محمد ابراہیم وانی نے بھارتی وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ وہ گرفتاری کے وارنٹ انٹر پول کے سپرد کرکے ، اوتار سنگھ کی حوالگی یقینی بنائے۔ جسٹس بلال نازکی، ان ججوں میں شامل تھے، جو اس کیس کی نگرانی کر رہے تھے۔ چند سال قبل انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے اس کیس پر احکامات صادر کرنے کی وجہ سے ہی حیدر آباد ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ نازکی، جو اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے، نے کہا: ’’جب میں نے کیس کی نگرانی شروع کی اور قتل کی تحقیقات کے لیے ایک SIT قائم کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے فوراً بعد میرا تبادلہ حیدرآباد کردیا گیا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔‘‘
جب کینیڈین حکام کو میجر سنگھ کی ملک میں موجودگی کا پتہ چلا، تو وہ لاپتہ ہو گیا ۔فروری 2011 کو ایک بھارتی خاتون نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میںپولیس کو فون کرکے بتایا کہ اس کا شوہر اس پر تشدد کر رہا ہے اور اس نے اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے۔ جب شوہر کو گرفتار کیا گیا اور اس کے فنگر پرنٹ لئے گئے ، تو معلوم ہو اکہ یہ بھارت میں مطلوب ملزم میجر اوتار سنگھ ہے۔ اس کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کا ریڈ نوٹس تھا۔ اگرچہ وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں تھا، لیکن وہ ایک عالیشان پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کاروبار کا مالک تھا۔ امریکی حکومت نے نئی دہلی کو مطلع کیا، جس نے اس کی حوالگی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔اسکے ڈیڑھ سال بعد جون، 2012 کو، سنگھ نے، جو اب کیلیفورنیا کے ایک دوسرے شہر سیلما منتقل ہوگیا تھا ، خود کشی کی اور اس سے قبل اپنی بیوی اور تین بچوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خود پر بندوق چلانے سے پہلے، اس نے شیرف کے دفتر کو فون کیا اور بتایا کہ اس نے چار لوگوں کو مار ڈالا ہے۔
کینیڈین سینٹر فار انٹرنیشنل جسٹس کے لیے کام کرنے والے وکیل میٹ آئزن برانڈ کا کہنا تھا کہ کہ سنگھ کا مقدمہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے عالمی دائرہ اختیار کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
سری نگر کے مرکز میں بٹہ مالو کے مکینوں کا بھی کہنا ہے کہ سنگھ نے ان کے محلے سے بھی متعدد نوجوانوں کو حراست میں لیا ، جو پھر کبھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹے۔چند سال قبل ان میں سے ایک جنید نے ایک انگریزی اخبار کو بتایا کہ میجر سنگھ نے نوجوانوں کی ایک ٹولی کے ساتھ اسکو بھی حراست میں لیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں دریائے جہلم کے کنارے لے جاکر اس نے فوجیوں کو حکم دیا ان نوجوانوں کی ایک ایک کرکے دریا میں پھینکا جائے۔ ’’ میں نے آنکھیں بند کیں اور گناہوں کی مغفرت کی دعا کرنے لگا ۔ مجھے معلوم تھا میری باری آنے والی ہے۔ لیکن مجھے واپس لایا گیا۔ ‘‘ جنید کا کہنا تھا کہ پلہالن کے کیمپ میں ایک مقامی استاد کو کے گلے میں میجر سنگھ نے اپنی چھڑی ٹھونس دی۔’’اس استاد نے میرے سامنے ہی دم توڑ دیا۔‘‘
معروف صحافی ہرتوش سنگھ بال، جس نے کینیڈا جانے سے قبل پنجاب کے ایک آرمی کیمپ میں سنگھ کا پتہ لگایا اور اس کے بعددو بار امریکہ میں سنگھ سے فون پر بات کی تھی، کا کہنا ہے کہ سنگھ نے اس کو بتایا تھا کہ اگر بھارتی حکومت اس کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے، تو وہ خاموش نہیں رہیگا۔ کئی مقدس گائیں اس کے ساتھ دفن ہو جائینگی۔ ”شاید یہ آدمی کچھ زیادہ ہی جانتا تھا اور زندہ رہنے کا مستحق نہیں تھا،‘‘
آج جب کنیڈا نے نجار کے قتل کے معاملے میں بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، تو میجر اوتار سنگھ اور قانون دان جلیل اندرانی کا ذکر لازمی تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ را جس نے سری لنکا اور میانمار میں شورشوں کی حمایت کی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے لڑنے والے گوریلوں کی مدد کی ہے، کینیڈا میں قاتلانہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگرکیا چین کو قابو کرنے کے نام پر مغربی دنیا بھارت کو دوسرا سرائیل بننے دینے کی متحمل ہو سکتی ہے؟کیا جنوبی ایشیاء دوسرا مڈل ایسٹ بننے جا رہا ہے؟
کسی نے چند سال قبل لکھا تھا کہ بھارت ، مغربی دنیا کے بگڑے ہوئے چھوکرے کا کردار ادار کر رہا ہے۔ کیا اس بگڑے چھوکرے پر لگام لگانے کا وقت نہیں آیا ہے، جو اس خطے کی سلامتی کو خطرے میں دال کر عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے؟استحکام اور پائیدار امن کیلئے سنجیدہ اقدامات اور بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے، جو سیاسی قوتوں کا ہی خاصہ ہوتا ہے۔