ڈاکٹر عتیق الرحمن ایسوسی ایٹ پروفیسر
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس، آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی
حالیہ دنوں میں سٹیٹ بینک نے اگلے پانچ سال کے لیے اپنا سٹریٹیجک ویژن شائع کیا ہے۔ یہ ویژین چھ اہداف پر مشتمل ہے اوران اہداف میں افراط زر ، مالیاتی استحکام، عام لوگوں کی مالیاتی خدمات تک رسائی، اسلامی بنکاری اور شریعہ پر مبنی مالیاتی خدمات کا فروغ ، ڈیجیٹل فائنانس کا فروغ اور سٹیٹ بینک کو ٹیکنالوجی پر مبنی اور عوام دوست بنانا شامل ہیں۔
اس ویژن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ اہداف کی فہرست میں سے معاشی ترقی اور روزگار کی فراہمی جیسے اہداف کو مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر مرکزی بینک تین اہداف کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں، یعنی قیمتوں کا استحکام، معاشی ترقی اور روزگار کی فراہمی۔ ان تینوں اہداف میں سے ترجیحی ہدف وقتا فوقتا تبدیل ہوتا رہا ہے، لیکن یہ تینوں اہداف مرکزی بینکنگ کے آغاز سے ہی سے اس کے مقاصد کا لازمی حصہ رہے ہیں ۔ تاہم 90 کی دہائی میں مرکزی بینکوں میں ایک نئے رجحان نے جنم لیا، جسے انفلیشن ٹارگٹنگ inflation targeting کا نام دیا گیا. انفلیشن ٹارگٹنگ میں افراط زر کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے جبکہ دیگر اہداف ثانوی شمار ہوتے ہیں۔
اگرافراط زر کو پہلی ترجیح شمارکر لیا جائے تو دیگر اہداف کو کس قدر اہمیت دی جا سکتی ہے؟ مختلف ممالک میں اس کے بارے میں مختلف قوانین موجود ہیں۔ متعدد مرکزی بینکوں نے اپنے اہداف کی فہرست سے معاشی ترقی اور روزگار کا تذکرہ نکال دیا ہے۔ 2021پاکستان میں کے اواخر میں ہونے والی قانون سازی میں سٹیٹ بینک کے اہداف میں بھی افراط زر کو پہلی ترجیح قرار دے دیا گیا جبکہ معاشی ترقی وغیرہ کو ثانوی کے بجائے ثالثی ہدف کے طور پر درج کیا گیا ، جبکہ سٹیٹ بینک کے حالیہ سٹریٹیجک ویژن میں معاشی ترقی کو ثالثی اہداف کی فہرست میں سے بھی نکال باہر کیا گیا۔ چنانچہ چھ بنیادی اہداف اور ان کے 32 ذیلی اہداف میں روزگار کی فراہمی یا معاشی ترقی کا لفظ تک شامل نہیں ہے۔
اہداف میں ترجیحات کا تعین صرف الفاظ یا ترتیب کی تبدیلی نہیں بلکہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلا 2019 اور 2023 دو ایسے سال تھے جب معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد سے گر کر ایک فیصد سے کم رہ چکی تھی۔ ایسے میں اگر مرکزی بینک کی ترجیح ترقی اور روزگار ہو تو شرح سود کو کم کیا جانا چاہیے تاکہ روزگار میں اضافہ اور معاشی ترقی ممکن ہو، لیکن ان دونوں اوقات میں مرکزی بینک نے افراط زر کو پہلی ترجیح کے طور پر لیا اور شرح سود میں اضافہ کا سلسلہ جاری رکھا جس سے ان دونوں اہداف کو شدید نقصان پہنچا۔
دو متبادل حکمت عملی میں سے ایسی حکمت عملی کو اختیار کرنا جس میں ترجیح روزگار کے بجائے کسی دیگر عنصر کو دی جائے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں لوگ بمشکل تمام گزارا کر رہے ہوں اور سوشل سیکیورٹی کا مضبوط بندوبست موجود نہ ہو، یہ بذات خود ایک ناپسندیدہ فیصلہ ہے۔ لاکھوں لوگوں کو روزگار کے ممکنہ مواقع سے محروم کرنے سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن اس ظلم کے لیے پاکستان کی پارلیمان نے عمران خان کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں کے تعاون سے قانون سازی کی۔
لیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ انفلیشن ٹارگٹنگ کے نام پر جو حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے وہ دراصل کاؤنٹر پروڈکٹو counterproductive ہے ,یعنی ایسی حکمت عملی جس کا مقصد افراط زر کو کم کرنا ہے وہ دراصل اسے مزید بڑھا رہی ہے۔
2018 کے اوائل میں پاکستان میں شرح سود5.75 فیصد تھی جبکہ افراط زر چار فیصد تھا۔ ممکنہ افراط زر کو جواز بنا کر سٹیٹ بینک نے 2018 کے اواخر میں شرح سود کو بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جو 2022 تک جاری ہے۔ ان پانچ سالوں میں سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ مانیٹری پالیسی بیانات اس بات پر گواہ ہیں کہ افراط زر میں کمی ہی شرح سود میں اضافہ کا بنیادی مقصد رہا۔ لیکن ان سالوں میں شرح سود بڑھانے سے افراط زر میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوسکی، بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق افراط زر میں اور اضافہ ہوا۔ 2019 کے آخر میں جب شرح سود 13.25 فیصد تھی، افراط زر بھی 15 فیصد سے زیادہ تھا، 2020 میں جب کرونا کی وجہ سے شرح سود میں عارضی ریلیف دیا گیا اور شرح کم کر کے سات فیصد پر لائی گئی، افراط زر میں بھی اسی تناسب سے کمی ہوئی اور افراط زر 10 فیصد سے کم ہوا۔ لیکن 2021 میں شرح سود میں دوبارہ اضافہ شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ افراط زر بھی دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا۔
جب ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ شرح سود بڑھانے سے افراط زر میں کوئی کمی نہیں ہوئی تو پھر شرح سود میں اضافے اور اسے اتنی بلند سطح پر رکھنے کا جواز کیا ہے؟ مقبول عام معاشی نظریہ کے مطابق شرح سود اور افراط زر میں تعلق منفی ہے یعنی اگر شرح سود بڑھائی جائے تو افراط زر میں کمی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ معاشی نظریہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس نظریہ کا حقائق سے تضاد صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشاہدہ کیا جا چکا ہے، اور اس نظریہ کی ناکامی کے متعدد اسباب ماہرین معیشت دریافت کر چکے ہیں۔ اس معاشی نظریہ کی ناکامی پر متعدد نوبل انعام یافتہ ماہرین معیشت کی تحریریں موجود ہیں جن میں کرسٹوفر سمز Christopher Simsاور جوزف سٹگلٹز Joseph Stiglitz شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے اس غلط نظریہ کی بنیاد پر پالیسی سازی کو ترجیح دیتے ہیں اور جو ممالک ان کے چنگل میں پھنسے ہوں ان پراس نظریہ کو زبردستی مسلط کرتے ہیں۔ اس کے برعکس متعدد ترقی یافتہ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں افراط زر کو مرکزی بینک کے اکلوتے ہدف کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود ان ممالک نے معاشی ترقی اور روزگار کے لیے بہت فراخ دلانہ پیکج دئیے۔
پاکستان میں اس وقت شرح سود 22 فیصد ہے جبکہ پڑوسی ممالک بشمول بھارت اور بنگلہ دیش میں شرح سود چھ فیصد سے کم ہے۔ چنانچہ اگر بھارتی حکومت اپنے ملک کے مرکزی بینک یا کسی کمرشل بینک سے قرض لیتی ہے تو اسے چھ فیصد کے حساب سے سود کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حکومت پاکستان کسی بنک سے قرض لیتی ہے تو اسے 22 فیصد کے حساب سے ادائیگی کرنی ہوگی۔ اسی وجہ سودی ادائیگیوں کا تناسب ملکی بجٹ میں 50 فیصد سے تجاوز کر چکا۔ رواں مالی سال میں سرکاری قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 7300 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ اگر اتنی ہی رقم بنگلہ دیش یا بھارت میں حکومت نے قرض لے رکھی ہو تو اس پر محض 2 ہزار ارب کی ادائیگی درکار ہوگی۔ اس اضافی ادائیگی کی واحد وجہ بلند شرح سود ہے اور بلند شرح سود کی وجہ سٹیٹ بینک کا وہ غلط مفروضہ ہے ،جس کے مطابق وہ سمجھتا ہے کہ شرح سود بڑھانے سے افراط زر میں کمی ممکن ہے۔
جیسا کہ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے افراط زر میں زرہ برابر کمی نہیں ہوئی، تو ایسے میں غلطی سے سیکھتے ہوئے درستگی کر لینی چاہیے، لیکن آئی ایم ایف کے دباؤ میں جکڑا ہوا سٹیٹ بینک اس ناکام معاشی پالیسی پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے ساتھ دل و جان سے جڑا ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کا یہ ایمان قوم کے دسیوں ہزار ارب خرچ کروا چکا ہے
پاکستان کے بجٹ میں سب سے بڑی ادائیگی دفاع کا بجٹ نہیں بلکہ سود کی ادائیگی ہے جو دفاعی بجٹ سے 300 فیصد زیادہ ہے، اور اس بڑی ادائیگی کی وجہ سٹیٹ بینک کا انفلیشن ٹارگٹنگ پر اصرار ہے۔ لیکن انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے اس مہنگے ترین فیصلے کا کبھی تجزیہ کیا ہی نہیں۔ سٹیٹ بینک کے پاس ایک بھی ایسی تجزیاتی رپورٹ موجود نہیں ہے جس میں اتنی بلند شرح سود کے فوائد اور نقصانات پر کوئی بحث موجود ہو۔ دسیوں ہزار ارب روپے کسی ٹھوس وجہ اور کسی معاشی تجزیہ کے بغیر محض ایک غلط مفروضہ کی بنیاد پر کئی سالوں سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
میں اپنے قارئین سے یہ ا درخواست کرتا ہوں کہ جہاں ممکن ہو، پنی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کی اس پالیسی کے فوائد و نقصانات پر بحث کی جائے اور ارباب اختیار تک یہ مطالبہ پہنچایا جائے کہ سٹیٹ بینک کو اپنی پالیسی کی تجزیاتی رپورٹ مناسب فورم پر پیش کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اگر حقائق کا تجزیہ پالیسی کی حمایت نہیں کرتا تو اس پالیسی کو ختم کر کے قوم کے ہزاروں ارب روپے بچائے جائیں اور شرح سود کو چار فیصد تک لایا جائے تاکہ کاروبار کے لیے قرض کا حصول ممکن ہو سکے، لوگوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں اور معاشی ترقی ممکن ہو۔
تمام معاشی نظریات اس بات پر متفق ہیں کہ بلند شرح سود ترقی کی رفتار کو سست کرتی ہے۔ اپنے پڑوس میں 8 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کرتی معیشتوں کے درمیان رہتے ہوئے اگر ہم ایسی ترقی کش پالیسی اختیار کریں گے تو مستقبل میں غربت و افلاس کی مثالیں دینے کے لیے صومالیہ اور چاڈ کی بجائے پاکستان کا نام لیا جائے گا۔