معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ
ڈاکٹر عتیق الرحمان
ایسوسی ایٹ پروفیسر
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس، یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر
پاکستان میں معاشی مسائل کی بنیادی وجہ برآمدات میں اس کی خراب کارکردگی ہے۔ پاکستانی برامدات اپنے پوٹینشل سے بہت کم ہیں، جس کی وجہ سے تجارتی عدم توازن اور ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
ادائیگیوں کے توازن میں خسارا پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا سبب بنتا ہے ، جس سے درآمدی اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی صنعتیں بھی اکثر درامدی خام مال پر انحصار کرتی ہیں اور روپے کی قدر میں کمی سے یہ خام مال مہنگا ہو جاتا ہے جو پیداواری لاگت بڑھاتا ہے اور نتیجتا مقامی طور پر پیدا شدہ اشیاء میں بھی افراط زر نظر آتا ہے۔ چونکہ یہ افراط زر پیداواری لاگت کی وجہ سے ہوتا ہے، اسے ڈیمانڈ مینجمنٹ کے زریعے کنٹرول کی کوشش نہیں ہونی اہئے۔
پیداوری لاگت کی وجہ سے پیدا ہونے والے افراط زر پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ردعمل انتہائی غیر دانشمندانہ رہا ہے۔ سٹیٹ بنک افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کر دیتا ہے۔ شرح سود میں اضافہ ڈیمانڈ پر اثر انداز ہونے کی بجائے پیداواری لاگت کو مزید بڑھادیتا ہے اور مقامی پیداوار کو مقامی صنعت کاروں کیلئے مزید مشکل اور ناخوشگوار بنا دیتا ہے۔
حال ہی میں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور بجلی کے بلوں پر متعدد اقسام کے ٹیکس عائد کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی مجموعی لاگت میں یکدم بہت بڑا اضافہ ہو گیا ہے،۔ ان سب عوامل کا مجموعی اثر مقامی پیداوار کی لاگت کو اتنا بڑھا دیتا ہے کہ مقامی صنعت غیر ملکی صنعت کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور صنعتیں بندش کی جانب بڑھ جاتی ہیں۔ مقامی صنعت کا بند ہونا برامدات کوکم کرتا ہے اوردرآمدات پر انحصار مزید بڑھا دیتا ہے۔
مقامی پیداوار میں کمی اور درآمدات میں مزید اضافہ ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال اور روپے کی قدر میں مزید بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح پیداور میں کمی، تجارتی توازن کے بگاڑ اور روپے کی بے قدری کا ایک منحوس دائروی اثر شروع ہو جاتا ہے۔
عام فہم سی بات یہ ہے کہ اگر معاشی مسائل کم پیداوار کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں تو اس کا حل پیداوار بڑھانے میں مضمر ہے۔ اگر پیداوار کی مزید حوصلہ شکنی کی جائے تو اس سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔ لہذا اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ پیداواری لاگت کو کم کیا جائے تاکہ مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پیداواری لاگت میں کمی کیلئے شرح سود اور پٹرول اور بجلی کی لاگت میں کمی ضرورت ہے، لیکن ہمارے معاشی فیصلے اس کے بالکل برعکس ہیں۔
اسحاق ڈار کے زیر سایہ پی ڈی ایم حکومت نے ابتدا میں آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف مزاحمت کی اور بعض اقسام کی درآمدات پر پابندیاں عائد کیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں نمایاں بہتری آئی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے سے پہلے کے مہینوں میں کرنٹ اکاؤنٹ توازن کے قریب پہنچ چکا تھا اور تھوڑی مزید کوشش سے اسے سرپلس میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی توازن میں مزید بہتری کے کافی امکانات موجود تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں 8 ارب ڈالر کی زرعی مصنوعات درآمد کیں۔ پاکستان درحقیقت یہ تمام اشیاء مقامی طور پر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چاہئے یہ تھا کہ ان اشیا کی مقامی پیداوار پر بھر پور توجہ دی جائے اور ان کی درامدات کو صفر پر لایا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں تبدیل ہو جاتا اور فاضل رقم بیرونی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے کافی ہو سکتی تھی۔
کرنٹ اکاؤنٹ توازن کو پاکستان کے حق میں موڑنے کے لیے زرعی شعبے پر بھرپور توجہ درکار تھی، اور اس توجہ کاتقاضا یہ تھا کہ شرح سود اور پیداواری لاگت کو کم کیا جائے۔ ایسے میں پھر پاکستان نے ایک بار آئی ایم ایف کے سامنے سر جھکا دیا اور اوہ تمام فوائد ضائع قربان کر دئے جو ند ماہ قبل حاصل کئے تھے۔ آئی ایم ایف نے درآمدات سے پابندیاں ہٹانے اور شرح سود بڑھانے کے نیم حکیمانہ نسخے پر زور دیا جو وقت کی ضرورت کے بالکل برعکس تھا۔
آئی ایم ایف کی شرائط نے حکومت کو توانائی کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا۔ ان دو عوامل نے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ یوں پیداوار میں کمی اور تجارت کے خراب توازن کا شیطانی چکر پھر سے شروع ہو گیا۔
بلند شرح سودایک طرف، پیداوار کی لاگت میں اضافہ کرتی ہے. دوسری طرف، یہ سودی ادائیگیوں کی صورت میں حکومت کے واجبات میں اضافہ کرتی ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں سود کی ادائیگیوں کے لیے 7303 ارب روپے مختص کیے گئے ۔ یہ رقم دیگر تمام بجٹ اخراجات بشمول دفاع، ترقی، سول حکومت وغیرہ سبھی کے مجموعہ سے بھی زیادہ ہے۔ سودی ادائگیوں کا حجم اتنا بڑا ہونے کی وجہ حکومت کی طرف سے شرح سود کا انتخاب ہے۔
سود کی ادائیگی پر ہونے والے بھاری اخراجات حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ٹیکس اور ڈیوٹیز بڑھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ ٹیکس پیداواری لاگت میں مزید اضافہ کرتے ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔
بحران سے نکلنے کا راستہ پیداوار کو آسان بنانے میں مضمر ہے، اور اس کیلئے درکار حکمت عملی موجودہ معاشی پالیسیوں کے بالکل برعکس درکار ہے۔ ہمیں شرح سود اور توانائی کی لاگت کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیداوار میں تیزی آئے۔ اگر مقامی پیداوار کو بڑھایا جائے تو اس سے درآمدات کا رجحان کم ہوگا اور برآمدات میں بہتری آئے گی۔ اس سے تجارتی توازن بہتر ہو گا اور بہتری کی طرف سفر کا آغاز ہوگا ۔
پی ڈی ایم کی طرف سےعدم اعتماد کی تحریک اور حکومت کی تشکیل حالیہ سیاسی تاریخ کے احمقانہ ترین اقدامات تھے جن کی وجہ سے عدم استحکام کو طول ملا۔ اس کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن حاصل کرنے کے باوجود، آئی ایم ایف کی طرف رجوع ایک غیر دانشمندانہ اقدام تھا جس نے معاشی منظرنامے کو مزید سیاہ کیا۔ پاکستان کو درحقیقت ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرے۔ جب تک ایسی حکومت میسر نہیں آئے گی، معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔