رتی گلی جھیل جہاں کبھی پھول کھلتے تھے اب دھول اڑتی ہے ۔
بشکریہ امیر الدین مغل سما ٹی وی
سطح سمندر سے تقریباً 12 ہزار فٹ بلندی پر واقع رتی گلی جھیل پاکستان اور آزاد کشمیر میں مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے جہاں ہر سال موسم گرما میں ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں۔
گنجائش سے زیادہ سیاحوں کی آمد اور مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے جھیل اور اس کے اطراف کا قدرتی ماحول بری طرح متاثر اور بتدریج تباہ ہورہا ہے۔
چند سال قبل اس جھیل تک جانے کے لیے سڑک نہیں تھی اور جھیل کی اطراف قدرتی خوبصورتی دیکھنے کے قابل تھی- جھیل کے سامنے ڈھلوانی میدان، عقب میں واقع پہاڑ اور جھیل کی طرف جانے والا راستہ خود رو پھولوں سے بھرا ہوتا تھا۔
لیکن اب حالت یکسر بدل چکے ہیں- جھیل کو جانے کے لیے جہاں کبھی صرف ایک راستہ ہوا کرتا تھا اب کئی راستے بن چکے ہیں- ان راستوں پر روزانہ سیکڑوں گھوڑے بیس کیمپ سے جھیل تک چکر لگاتے ہیں جب کہ پیدل چلنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بے تحاش اور بے ترتیب آمد و رفت کی وجہ سے جھیل کے سامنے میدان اور ڈھلوانی راستوں کا قدرتی حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔
جہاں کبھی رنگ برنگے پھول ہوا کرتے تھے وہ وہاں گھوڑوں کی ٹاپوں کے ساتھ دھول اڑ رہی ہے۔ گھوڑوں کی لید سے اٹھتا تعفن یہاں آنے والوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔
رتی گلی جھیل پر آنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے مگر منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ آزاد کشمیر کے محکمہ سیاحت نے پیدل چلنے والوں کے لئے ایک کچا ٹریک تعمیر کرنے کا آغاز کیا لیکن اس ٹریک پر بھی گھوڑے اور انسان ایک ساتھ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔
رتی گلی جھیل کے اولین ٹور گائیڈ اور رتی گلی بیس کیمپ میں پہلا خیمہ لگانے والے محمد رئیس انقلابی نے بھی موجودہ صورتحال کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں انہوں نے سات آٹھ سال پہلے پہلا خیمہ لگایا تھا اب وہاں خیموں کے بستی آباد ہو چکی ہے۔ کبھی یہ جگہ سرسبز و شاداب تھی اب یہاں وہ سبزہ ختم ہو چکا ہے۔ ہر طرف دھول اڑ رہی ہے ہم اپنی استطاعت کے مطابق صحت و صفائی اور قدرتی ماحول کے تحفظ کیلئے کام کرتے ہیں۔ لیکن ان چیلنجیز سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی حکومتی اداروں کے بغیر ممکن نہیں۔
سیاح بھی سہولیات کے فقدان پر پریشان
ملتان سے آنے والے شاہد نامی سیاح کا کہنا ہے کہ رتی گلی بیس کیمپ سے جھیل تک پہنچنے کیلئے انہوں نے انتہائی مشکل سفر طے کیا۔
شاہد کا کہنا تھا کہ وہ پہلی مرتبہ رتی گلی آئے ہیں لیکن یہاں آکر بہت افسوس ہوا کیوں کہ خوبصورت سیاحتی مقام کو بری طرح تباہ کیا جارہا ہے، ٹریک پر لوگ اور گھوڑے ایسے ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ جیسے یہ سیاحتی مقام نہیں بلکہ کوئی مال روڈ ہے۔
سیاحت کے لئے آنے والے ایک اور نوجوان لیاقت حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم حکومتی اداروں کو بیس کیمپ سے جھیل تک دو ٹریک بنانے چاہییں جس میں پیدل چلنے والے لوگ اور گھوڑے الگ الگ چلیں تاکہ جھیل کے گرد ونواح میں قدرتی حسن تباہ ہونے سے بچ سکے۔
روزگار کے متلاشی افراد کے ذمہ ہی صفائی
جہاں ایک طرف ہزاروں افراد جھیل کے قدرتی حسن کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں وہیں چند مقامی نوجوان ایسے ہیں جو جھیل کو صاف رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جھیل کے کناروں کوڑا کرکٹ نظر نہیں آتا۔
مقامی نوجوان گھوم پھر کے چائے اور ابلے گرم انڈے فروخت کرتے ہیں۔ یہ نوجوان روزانہ کی بنیاد پر جھیل کی صفائی کرتے ہیں۔ سیاحوں کی طرف سے پھینکا گیا کچرا جمع کرکے ہر روز بیس کیمپ تک لاتے ہیں۔
نوجوانوں کے اس گروپ کی سربراہی کرنے والے نوجوان تنویر نے بتایا کہ ہمیں کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی تعاون نہیں کیا۔ البتہ سرکاری افسروں نے ہمیں اس شرط پر یہاں چائے اور انڈے فروخت کرنے کی اجازت دی ہے کہ ہم اس کے بدلے جھیل کی صفائی کریں۔ ہم یہ کام اپنی خوشی سے رضاکارانہ بنیادوں پر کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر سیاح کھانے پینے کی اشیا، پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمیت کئی اقسام کا کچرا پھینک دیتے ہیں۔ ہم جھیل کے اطراف بڑے میدانوں میں سے یہ کچرا صاف کرتے ہیں لیکن جھیل کی طرف آنے والے راستے والے ایریا سے ہم یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر حکومت مدد کرے تو ہم جھیل کی طرف آنے والے راستے والے علاقے کی بھی صفائی کر سکتے ہیں۔
جھیل کا پانی غیر معمولی حد تک گرم ہو چکا
رتی گلی جھیل کے گرد و نواح میں قدرتی حسن تو ماند پڑرہا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے سے اب جھیل کا پانی غیر معمولی حد تک گرم ہو چکا ہے۔ صدیوں پرانے گلیشیئر اور چشموں سے نکلنے والے جھیل کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں چند سال قبل تک نہانا مشکل تھا۔ لیکن اب پانی کا درجہ حرارت تبدیل ہو چکا ہے کئی سیاح جھیل کے پانے کے اندر چلے جاتے اور نہاتے ہیں۔
محض 8 سال قبل 2014 میں اس مشاہدے کے ثبوت موجود ہیں کہ جھیل پر ٹھنڈ کی وجہ سے رات کے وقت کہرے کی موٹی تہہ جمی دیکھی گئی تھی لیکن اب یہ ناممکنات میں سے ہے۔ جھیل کے عقب میں صدیوں پرانے گلیشیئرز بھی اب تیزی سے پگھل رہے ہیں ان گلیشیئرز میں واضع کمی دیکھی جارہی ہے۔
ماہر ماحولیات کیا کہتے ہیں؟
ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر پی ایچ ڈی سکالر ڈپٹی ڈائریکٹر ادارہ تحفظ ماحولیات سردار محمد رفیق نے بتایا کہ خطے میں دو سے تین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن رتی گلی جیسے علاقوں میں درجہ حرارت اس سے بھی زیادہ بڑھا ہے۔ کیوں کہ چند سال قبل اس علاقے میں چند بکروال خاندان یا مقامی لوگوں کے خاندان گرمیوں کے موسم میں اپنے مویشی کے ساتھ چند ماہ رہتے تھے اب تو سیکڑوں گاڑیاں ہزاروں سیاح کی آمد رفت ہے۔ بہت بڑا بیس کیمپ ہے یقینی طور پر ان سرگرمیوں کا اثر تو قدرتی ماحول پر پڑتا ہے۔ اب یہ اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے کہ روزانہ کتنی گاڑیاں اور لوگوں کی آمد رفت ہورہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں میں بے تحاشا اضافہ یقینی طور پر بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔
محکمہ سیاحت آزاد کشمیر کا مؤقف
محکمہ سیاحت آزاد کشمیر کے ناظم اعلیٰ راشد حنیف قریشی نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت رتی گلی پر روزانہ کی بنیاد پر 400 کے لگ بھگ فور بائی فور جیپیں چل رہی ہیں اس کے علاوہ لوگ اپنی گاڑیوں پر بھی جھیل کی سیاحت کیلئے جاتے ہیں، سیاحوں کی رہائش کے لئے بیس کیمپ میں 150 خیمے لگائے گئے ہیں۔ قدرتی ماحول اور خوبصورتی کو بچانے کیلئے بیس کیمپ سے آگے گاڑیوں کے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ جھیل تک پیدل ٹریک بھی تعمیر کا جارہا ہے تاکہ مختلف علاقوں سے پیدل آمدو رفت نا ہو۔
راشد حنیف قریشی نے مزید بتایا کہ صحت و صفائی کے حوالے کیلئے واش رومز بھی بنائے جا رہے ہیں، رتی گلی میں مقامی نوجوانوں کے ساتھ مل کر ٹورسٹ ڈسٹنیشن کمیٹی قائم کی ہے جس کا کام جھیل کو صاف رکھنا ہے اور محکمہ ان سے مکمل رابطے میں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ناظم اعلی محکمہ سیاحت نے تسلیم کیا کہ رتی گلی سمیت تمام سیاحتی علاقوں کی ماسٹر پلاننگ کی ضرورت ہے تاکہ یہ طے کیا جائے کہ کس علاقے میں کتنے سیاحوں کو جانے کی اجازت ملنی چاہیے، گنجائش سے زیادہ سیاحوں کی آمد رفت قدرتی ماحول اور خوبصورتی پر اثر انداز ہوتا ہے۔