کشمیر، محکمہ اطلاعات کی طرف سے صحافیوں پر لفافہ کا الزام
خورشیدالزمان عباسی واشگٹن
آزادکشمیر (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) میں (تحقیقاتی صحافت) انوسٹی گیٹیو جنرلزم اور کرائم رپورٹنگ کا وجود ہی نہیں تو لفافہ سپانسر صحافت سے کیا مراد ہے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کا ڈائریکٹر جنرل اور سیکرٹری بھی احمقوں کی جنت سے آئے لگتے ہیں جبکہ sponsored بھی محکمہ اطلاعات والے کو پوسٹر بناتے وقت لکھنا نہیں آیا میرے صحافی دوست ویسے ہی غصہ کر رہے ہیں رپورٹرز کی مَعْمُول کی رپورٹ روکنے کے لیے بھی کوئی لفافہ دے گا کیا آزادکشمیر بھر میں تحقیقاتی صحافت کرائم رپورٹنگ کا کوئی ریکارڈ کسی صحافی دوست کے پاس اخبارات میں شائع شدہ ہو تو میرے ساتھ شئیر کر کے میری راہنمائی فرمائیں۰ یاد رکھیں آزادکشمیر میں قانون اطلاعات یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کا کوئی قانون نہیں جس کے ذریعہ صحافی یا عام آدمی سرکاری کام کے اعداد و شمارکی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ جس کی بنیاد پر تحقیقی مواد جمع کر کے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیا جا سکے صحافی کا سورس آزادکشمیر میں سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ملازم یا سرکاری افسران ہوتے ہیں جن کی اپنے محکمہ میں افسران بالا یا کسی حکومتی وزیر سے عداوت ہو تو خبر لیک کر دیتے ہیں ہے ورنہ کسی بھی طرح کی تحقیقاتی صحافت کے لیے RTI کا سرکاری سورس وجود ہی نہیں رکھتا تحقیقاتی صحافت دراصل صحافت کی ایک شکل ہے جس میں رپورٹرز دلچسپی کے کسی ایک موضوع کی گہرائی سے تفتیش کرتے ہیں، جیسے سنگین جرائم، سیاسی بدعنوانی، یا کارپوریٹ کرپشن ایک تفتیشی صحافی تحقیق کرنے اور رپورٹ تیار کرنے میں مہینوں یا سال لگا سکتا ہے کیونکہ اس کام میں سماجی اور قانونی مسائل کی چھان بین اور دستاویز کے تجزیے میں قانونی کاغذات، عوامی ریکارڈ، اور مالی معلومات کی جانچ شامل ہوتی ہے۔
آن دی ریکارڈ اور گمنام ذرائع کے ساتھ کئی گہرائی والے انٹرویوز کرنے پڑتے ہیں تحقیقاتی صحافت میں، خفیہ طور پر کام کرنا پڑتا ہے جس میں خود کو صحافی کے طور پر ظاہر کیے بغیر خفیہ طور پر کام کرتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نہیں ہمارے گِنے چُنے صحافی ہوتے ہیں جو جانے پہچانے لوگ ہوتے ہیں جنھیں شہر گلی محلہ دوکاندار سب جانتے ہوتے ہیں اور پھر اخبار والے تنخواہ بھی پوری نہیں دیتے ایک اخباری مالک ایک عام رپورٹر سے تین طرح کے کام کرواتا ہے پہلا اخبار کے لیے اشتہارات کا حصول بلات کی وصولی اور بدلے میں اگر ایک اخبار میں تین نمائندے کام کریں تو تنخواہ بیوروچیف کو ہی ملتی ہے یوں صحافی اپنے مالی مسائل کے پیش نظر خود اعتمادی سے کام ہی نہیں کر سکتا جبکہ ایک عام نامہ نگار کا کام کہانی کے حقائق کی تصدیق کرنا، انہیں ایک مربوط رپورٹ کی صورت میں جمع کرکے اپنے اخبار کو اشاعت کے لیے بھیج دینا ہوتا ہے۔ ۔اب آتے ہیں جرائم کی رپوٹنگ پر اس فلیڈ میں کام کرنے والے صحافی کو کرائم رپورٹر کہتے ہیں صحافت میں جرائم کی رپورٹنگ جرائم کے ارتکاب مثلاً، بینک ڈکیتی، قتل یا ممکنہ مجرمانہ سرگرمی مثلاً، کارپوریٹ اخلاقیات، دھوکہ دہی سے متعلق کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے اسے تفتیشی صحافت کہتے ہیں آزادکشمیر میں بینک ڈکیتی اور قتل کے جرائم کی شرح کم ہے مگر سرکاری اداروں اور حکومتی سطح پر مالی ڈکیتی کی جاتی ہے جس پر صحافیوں کی تحقیق کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی اگر کوئی ایک دو اخبارات میں سال میں دو تین خبریں حکومتی محکموں میں سرکاری طور پر کی جانے والی مالی کرپشن کی آ بھی جائیں تو باقی کا سال اس کے اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں یوں آزادکشمیر میں مروجہ صحافت روزمرہ کی عام خبروں کی رپوٹنگ اور پریس کانفرنس کی کوریج پر چلتی ہے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ آزادکشمیر اخباری اشتہارات زیادہ آزادکشمیر کے اخباروں کے بجائے پاکستانی اخبارات اور پاکستانی اشتہار ی کمپنیوں کے ذریعے تقسیم کر تا ہےکیونکہ اس میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ آزادکشمیر بھی پس پردہ لے دے کر لیتا ہے جسکی پر مقامی صحافی شور ڈالیں بھی تو معاملہ رَفَع دَفَع ہو جاتا ہے دراصل اسلام آباد پنڈی اور کراچی سے شائع ہونے والے اخبارات کے مالکان اور ان کے مدیران آزاکشمیر کے سیاستدانوں سے سفارش کروا کر اشتہاری بزنس لے جاتے ہیں پاکستان بیس اشہتاری کمپنیوں اور اخبارات میں اکثر ریٹائر ڈ فوجی کام کرتے ہیں یوں آزادکشمیر کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کو فوج کی سفارش بھی سننی پڑتی ہے یہ احوال ہے پرنٹ میڈیا کا اور ٹی وی میڈیا پر آزادکشمیر کی اپنی حد تک کوئی نہیں ہے کیونکہ اس خطہ کو پاکستانی فوج اور اس کے دیگر اداروں نے حساس
قرار دیکر یہاں ٹی وی میڈیا کا گلہ کھونٹ رکھا ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس کو بھی دفاعی خطرات کے پیش نظر حساس قرار دیکر برقی آواز کو بھی دبا رکھا ہے مگر موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور آزادکشمیر میں جگہ جگہ نصب ہیں کونکہ وہ کمپنیاں یہاں سے کھربوں روپے کا کاروبار کرتی ہیں اور یہاں کی عوام فون ڈیٹا کی خرید پر ٹیکس ادا کرتی ہے وہ کہاں جاتا ہے پتہ نہیں جبکہ آزادکشمیر کی کوئی بھی اراضی دفاعی نقطہ نظر سے جب بھی ضرورت پڑتی ہے آزادکشمیر کا پٹواری حکومت آزادکشمیر کے حکم پر بغیر پمائش کے جگہ فوج کے حوالے کر دیتا ہے کیونکہ یہ حساس علاقہ ہے اسکی اطلاع اگر مقامی میڈیا دے تو پھر صحافی کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی ایک حساس معاملہ ہے.
نوٹ ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔