کامیابیاں، ناکامیاں، چیلنجز اور یادگار لمحات، 2024 پاکستان میں کھلیوں کے لئے کیسا رہا؟
سعد ذوالفقار خان
پاکستان میں 2024, کھیلوں کے میدان میں ایک جذباتی اور ڈرامائی کہانی لے کر آیا، جس نے قوم کو خوشی کے چند لمحے تو دیے لیکن ساتھ ہی تلخیوں اور مایوسیوں سے بھی بھرپور رہا۔ یہ سال کئی اتار چڑھاؤ، غیر متوقع کامیابیوں، ناقابلِ یقین شکستوں اور مستقبل کے لیے اہم فیصلوں کا سال رہا۔
سال کا آغاز ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے شکست کے سائے میں ہوا۔ آسٹریلیا کے خلاف تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا، جو ٹیم کی بدترین کارکردگی تھی۔ شان مسعود کی قیادت بھی تنقید کی زد میں آئی اور یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا وہ کپتانی کے لیے موزوں ہیں بھی؟۔ یہ سیریز پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئی، جس میں قومی ٹیم کو مسلسل 17ویں ٹیسٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے 1995 سے لے کر 2024 تک آسٹریلوی سرزمین پر پاکستان ایک بھی ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
آسٹریلیا کی شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کا اگلا امتحان نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز تھی، اس سیریز کے لیے حیرت انگیز طور پر بابراعظم کو قیادت سے ہٹا کر شاہین شاہ آفریدی کو کپتان بنایا دیا گیا لیکن نتائج نا بدلے، اور پاکستان یہ سیریز 4-1 سے ہار گیا۔ اس شکست نے شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی کا بھی خاتمہ کر دیا، اور وائٹ بال کرکٹ کی قیادت دوبارہ بابراعظم کو سونپ دی گئی۔ اسی دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کی جگہ محسن نقوی کو تعینات کیا گیا، جس سے ٹیم میں مزید تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں منعقد ہونے والا ٹی 20 ورلڈ کپ پاکستانی ٹیم کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہ تھا۔ امریکہ کی نوزائیدہ ٹیم کے خلاف عبرتناک شکست نے قومی ٹیم کی اگلے مرحلے میں جانے کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ اور پھر دنیائے کرکٹ کے مہا مقابلے میں بھارت کے خلاف پاکستانی باؤلرز نے تو 119 رنز پر بھارتی ٹیم کو چلتا کیا مگر! بیٹنگ کی ناکامی، لاپرواہی اور رنز کے تعاقب میں ناقص حکمت عملی لے ڈوبی جس کے باعث یہ میچ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
سپر ایٹ مرحلے تک رسائی میں ناکامی اور کینیڈا و آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیموں سے شکست کے بعد پاکستانی ٹیم خالی ہاتھ وطن واپس لوٹی۔اس ناکامی کے بعد محسن نقوی نے ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ دے دیا اور دعویٰ کیا کہ ٹیم کو مکمل سرجری کی ضرورت ہے۔ لیکن عالمی کپ کی ناقص کارکردگی کے باوجود تمام پاکستانی کھلاڑیوں کو ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم دی گئی۔
پاکستان اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے آئی سی سی کی درجہ بندی میں ساتویں پوزیشن پر چلا گیا مگر اگلے عالمی کپ کے کوالیفائر میچز کھیلنے سے پھر بھی بال بال بچ گیا.
گزشتہ سال کی مزید تلخیوں میں بنگلہ دیش کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں شکست کا زخم بھی شامل ہوا جب مہمان ٹیم نے پاکستانی باؤلرز کی ناکامی (کوالٹی اسپنر کی عدم دستیابی )کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو 10 وکٹوں سے ہرایا، اور پھر دوسرے ٹیسٹ میں بھی فتح سے ہمکنار ہوتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو وائٹ واش کر دیا۔ اس شرمناک ہار سے شان مسعود پر تنقید کے سلسلے میں مزید اضافہ ہوتا گیا، لیکن اسی دوران بابراعظم نے ایک مرتبہ پھر وائٹ بال کرکٹ کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو ملتان ٹیسٹ میں شان مسعود، سلمان علی آغا، اور عبداللہ شفیق نے سنچریاں بنا کر ٹیم کو مضبوط پوزیشن میں لایا۔ لیکن انگلش باؤلرز نے پاکستانی بیٹنگ لائن کو تباہ کرکے میچ کو ایک اننگز اور 47 رنز سے جیت لیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ کسی ٹیم کو 500 سے زائد رنز بنانے کے باوجود اننگز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
شان مسعود نے مسلسل چھ ٹیسٹ ہارنے والے پہلے کپتان بننے کا ایک اور شرمناک اعزاز اپنے نام کیا، جس نے بورڈ میں کھلبلی مچا دی۔
اگلے دو ٹیسٹ میچز میں پاکستان نے حیرت انگیز واپسی کی اور انگلینڈ کو شکست دے کر سیریز جیت لی۔ اس کامیابی کا سہرا نعمان علی اور ساجد خان کی شاندار اسپن باؤلنگ کو جاتا ہے جنہوں نے 2 میچز میں مجموعی طور پر 39 وکٹیں حاصل کیں۔ سعود شکیل، سلمان آغا اور محمد رضوان نے بیٹنگ میں عمدہ کارکردگی دکھائی۔
پاکستان نے نومبر میں آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں 22 سال بعد ون ڈے سیریز میں 2-1 سے شکست دی۔
اس سیریز میں حارث رؤف کی شاندار باؤلنگ نے ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، ٹی 20 سیریز میں ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ زمبابوے میں پاکستان نے ون ڈے اور ٹی 20 سیریز جیت کر کچھ سکون حاصل کیا،
جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز میں صائم ایوب کی سنچریوں کی بدولت پاکستان نے 3-0 سے فتح حاصل کی اور پاکستان جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں وائٹ واش کرنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
فروری2025 میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے لیے بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا، جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے دو ٹوک موقف اپنایا کہ اگر بھارت پاکستان نہیں آئے گا تو پاکستان بھی بھارت میں نہیں کھیلے گا۔ بالآخر، فیصلہ ہوا کہ چیمپئنز ٹرافی فیوژن ماڈل کے تحت منعقد ہوگی، جہاں بھارت کے میچز نیوٹرل مقام پر ہوں گے۔اس ماڈل کے تحت 2027 تک کے تمام آئی سی سی ایونٹس اسی ماڈل کے تحت ہی کھیلے جائیں گے اور اس دوران پاکستان بھی بھارت کا دورہ نہیں کرے گا اور بھارت کی میزبانی میں ہونے والے تمام ایونٹس میں پاکستان کے میچز بھی نیوٹرل وینیو پر کھیلے جائیں گے۔
آئی سی سی کی جانب سے 2028 میں ہونے والے ویمن ولڈکپ کی میزبانی بھی پاکستان کو سونپ دی گئی.
پیرس اولمپکس 2024 پاکستانی کھیلوں کے لیے ایک روشن لمحہ اور خوشگوار ہوا کا جھونکا لے کر آیا، جہاں ارشد ندیم نے جیولن تھرو میں 92.97 میٹر کی دوری پر نیزہ پھینک کر اولمپکس کا 18 سالہ ریکارڈ قائم توڑ ڈالا اور پاکستان کے لیے طلائی تمغہ جیتا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا انفرادی اور پچھلے 40 سال میں پہلا طلائی تمغہ تھا. ان کی کامیابی نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا، ارشد حقیقی معنوں میں پاکستان کے سپر سٹار اور ہیرو ثابت ہوئے اور سال 2024 میں پاکستان کے سب سے زیادہ سرچ کئے جانے والے شخص بھی ارشد ندیم تھے.
پاکستان ویمنز ٹیم کے احوال
پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے یہ سال مایوس کن رہا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں شکست اور ایشیا کپ میں ناکامی نے ٹیم کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے۔ ندا ڈار کو کپتانی سے ہٹا کر فاطمہ ثنا کو قیادت سونپی گئی، لیکن وہ بھی ثجنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ٹیم کامیاب نہ ہوسکی۔
قومی کھیل ہاکی کے لیے یہ سال کچھ حد تک تسلی بخش رہا۔ 21 سال بعد پاکستانی ٹیم نے سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کا موقع ملا ۔ فائنل میں میچ 2-2 گول سے برابر ہوا اور نتیجہ پنالٹی شوٹ پر آیا، جس میں جاپان کی ٹیم نے فتح حاصل کی۔ اس ہار کے باوجود قومی ٹیم نے اپنے پرستاروں کے دل جیت لیے اور شائقین نے پھر سے ہاکی ٹیم سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ ایشین چیمپئینز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی، مگر چین سے شکست کھا بیٹھی۔
دیگر کھیلوں میں پاکستان کے حیدر سلطان نے روسی ویٹ لفٹر کو شکست دے کر برکس گیمز میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔
پاکستانی روئیرز نے تھائی لینڈ میں ہونے والے انٹرنیشنل روئنگ مقابلوں میں 9 طلائی تمغے جیتے، جن میں کرکٹر فیصل اقبال کی بیٹی، حوریہ فیصل بھی شامل تھیں۔
پاکستان کے زاہد مغل نے ٹوکیو باڈی بلڈنگ ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
انڈر 19 ایشیا کرکٹ کپ میں پاکستانی بلے باز شاہ زیب خان نے مسلسل 2 سینچریاں سکور کیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان فائنل تک نہ پہنچ سکا اور سیمی فائنل میں شکست کھا بیٹھا۔ اسی طرح، بلائنڈ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں بنگلہ دیش کو شکست دے کر فتح حاصل کی جس میں کپتان نثار علی بہترین کھلاڑی قرار پائے.
سال 2024 پاکستان کے کھیلوں کے لیے ایک سبق آموز اور جذباتی سفر ثابت ہوا۔ کرکٹ کے میدان میں تلخ یادیں، اولمپکس میں ارشد ندیم کی کامیابی، اور چیمپئنز ٹرافی کے تنازعات نے یہ سال یادگار بنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کی سال 2025 میں یہ تجربات پاکستان کے لئے کھیلوں کو بہتری کی طرف لے جائیں گے یا پھر ہم اگلے سال پھر اسی طرح کامیابیوں اور ناکامیوں کے ملے جلے تاثرات کا زکر کر رہے ہونگے