وہ پہاڑ جہاں” دل “ملتے ہیں
تحریر:آصف رضا میر
خالقِ کائنات کی حسین ترین تخلیق جنت ارضی خطہ کشمیر کا دیو مالائی حسن دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے اس جنت نظیر خطے کے پہاڑوں کو دیکھ کر انسان بےاختیار اپنے کریم مالک کی حمد و ثنا بیان کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے
کشمیر کے رہنے والوں کے لئے “مکڑا پہاڑ “کی خصوصی اہمیت کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے مکڑا اور گنجا پہاڑ
کو اپنی نظروں کے سامنے آسمان سے باتیں کرتا ہوا پایا ہے
کبھی برف کی چادر اوڑھے اور کبھی ہلکے سبزے کی پوشاک پہننے ان پہاڑوں پر جانے کی خواہش ہر دل کے نہاں خانوں میں انگڑائیاں لیتی دیکھائی دیتی ہے مگر
ہرکوئی اس علاقے کا رخ کرنے سے قبل کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ دشوار گزار راستے، موسم اور حالات کی سختیاں آڑھے آ جاتی ہیں
ہم بھی طویل عرصے سے اسی خواہش کو دل میں دبائے حسرت بھری نگاہوں سے اس فلک بوس پہاڑ کو دیکھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ کسی بہانے وہاں پر جانے کا موقع مل جائے.
آخر کار اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے وہ دن آ ہی گیا، جب ٹی وی جرنلسٹس آفس میں سما نیوز سے وابستہ سنیر صحافی امیر الدین مغل صاحب نے اچانک یہ خوشخبری سنائی کہ ہم بروز جمعہ مکڑا پہاڑ سر کرنے جا رہے ہیں امیر الدین مغل ہماری ٹیم میں وہ نابغہ روزگار شخصیت ہیں جنھیں بلند پہاڑی چوٹیاں سر کرنے اور جنگل میں سفر کرنے کا وسیع تجربہ موجود ہے
اس سفر کے میزبانی کے فرائض کوٹلہ ویلی کے نامور سپوت اورنگزیب سیف اللہ جرال اور محترم عبدالرشید رانا سرانجام دے رہے تھے، سفر میں ہمارے ساتھ رونقِ محفل سچ نیوز سے وابستہ سید ندیم حسین شاہ، اب تک نیوز سے منسلک سید اشفاق شاہ، کیمرے پر اپنے کمالات دیکھانے والے عزیزم شاہ زیب افضل نے ہمت، حوصلے اور جرات مندی سے ایک نئی اور روشن مثال قائم کی ہے.
بروز جمعہ 11 اکتوبر2024 ہم نے اپنے سفر کا آغاز مظفرآباد سے کیا اور اپنے پہلے پڑاو پر خوبصورت لوگوں کی سرزمین بالا کوٹ جا پہنچے، وہاں ایکسپریس نیوز سے وابستہ خوش مزاج اور مہمان نواز شخصیت ذوالفقار علی اور انکے دوست محترم الیاس احمد اعوان صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے انھوں نے ٹیم کی بھرپور خاطر تواضع کے بعد ہمیں شوگراں کے لئے رخصت کیا جہاں ہم نے رات بسر کرنی تھی، شوگراں ویلی میں دنیا نیوز سے وابستہ سادہ اور پروقار شخصیت کے حامل آصف اعوان صاحب نے دوستوں کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا اور انکی گفتگو سے بھرپور انداز میں لطف اٹھایا
رات کو جلدی سونے کی کوشش کی کیوں کہ اگلے روز نمازِ فجر کے بعد ہم نے اپنے سفر کے مشکل حصے کی جانب بڑھنا تھا، مجھے ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ میں نے حسب وعدہ صبح سوا پانچ بجے دوستوں کو جگانا شروع کیا اور بقول ندیم شاہ صاحب اگر یہ گستاخی کوئی اور کرتا تو شاید وہ داستان کو بیان کرنے کے لئے زندہ سلامت موجود نہ ہوتا
نماز فجر کی ادائیگی اور اس کے فوراً بعد ناشتہ کرتے ہی ہم شوگراں سے جیپ کے ذریعے سری پائے کی طرف روانہ ہوئے راستہ دشوار مگر دونوں اطراف گھنے جنگلات دیکھ کر دلی خوشی ہوئی، جب سری پائے آخری سٹاپ پر جیپ سے اترے تو سامنے چاروں جانب پہاڑ اور ان پر موجود برف کی ہلکی تہہ صبح سورج کی پہلی کرنوں میں موتیوں کی مانند چمک رہی تھی، وہاں موجود مقامی لوگوں نے آفر کی کہ وہ گھوڑوں پر ہماری ٹیم کو مکڑا بیس کیمپ تک چھوڑ سکتے ہیں مگر ہم نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے پیدل سفر کا آغاز کیا.
سفر کے آغاز میں گھاس سے ڈھکے میدان میدان شوقِ سفر کو اور بڑھا رہے تھے، یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ٹیم میں موجود ہر فرد کے پاس پانی کی بوتل، کھانے کے لئے خشک میوہ جات، فروٹ ، برساتی، سٹک، گرم جیکٹ، میڈیکل کٹ، پاور بنک، ٹارچ سمیت دیگر ضروری سامان موجود تھا تاکہ کسی بھی صورتحال کا سامنا ہو تو مناسب اشیاء میسر ہونی چاہیئے میدانوں سے نکل کر پہاڑ کی بلندی کی جانب سفر شروع ہوا تو مختلف جڑی بوٹیوں کی خوشبو اور رنگ برنگے پھولوں نے ہماری ہمت اور حوصلے میں مذید اضافہ کیا.
ہمارے ساتھ اورنگزیب جرال اور اشفاق حسین شاہ کی اس سفر میں ہمت کو داد نہ دینا یقینا ناانصافی ہو گی کیونکہ انکے متعلق میرے ذہن میں یہ خدشہ موجود تھا کہ شاید وہ 13000فٹ بلند اس پہاڑ پر نہ پہنچ سکیں، مگر خالقِ کائنات کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں کہ چار گھنٹے کے پیدل اور مشکل سفر کے بعد ہم اپنی منزل مکڑا ٹاپ پر جا پہنچے اور اس روز موسم اس قدر خوبصورت تھا کہ جس کو نہ تو کیمرے کی آنکھ دیکھا سکتی ہے اور نہ ہی الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے مکڑا ٹاپ سے مظفرآباد اور خیبرپختونخوا کے بلند پہاڑی اور سیاحتی مقامات صاف دیکھائی دے رہے تھے جہاں پہاڑ آپس میں ملتے ہیں وہیں اس سفر کا مقصد مہماتی سیاحت کو اجاگر کرنا، شوگراں اور کوٹلہ ویلی میں گروپ ٹورزم کو فروغ دیکر عوام کو باعزت روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کی ایک اولین کوشش ہے
پہاڑ کی بلندی پر بیٹھ کر اٹھنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا مگر واپس تو لوٹنا تھا کافی دیر وہاں سستانے کے بعد ہم وہاں سے وادی کوٹلہ کی طرف پیدل روانہ ہوئے، واپسی پر انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب مقامات ھوٹی مکڑی، سوکڑ، بان، جبرسر سمیت دیگر وادیاں دعوت نظارہ پیش کر رہی تھیں، مکڑا پہاڑ پر جاتے ہوئے اور واپسی پر ایک کمی کا شدت سے احساس ہوا اور وہ یہ کہ کہیں بھی اس طرح کے راستے، نشانات، علامات موجود نہیں کہ کوئی انجان سیاح اکیلا ان وادیوں کا رخ کرے اس حوالے سے فوری توجہ کی ضرورت ہے اور سڑکوں کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے جو سیاحتی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے رات گئے ہم’ لمبی باڑی “رانا عبدالرشید صاحب کے رحمت خانے پر پہنچے جہاں دیسی اور روایتی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی.
اگلے روز جیپ کے ذریعے بھیڑی پہنچے جہاں میر ولایت صاحب کا زیر تعمیر گیسٹ ہاؤس دیکھا اور پھر آنے کا وعدہ کر کے ان سے رخصت چاہی، پھر اپنے میزبان
اورنگزیب جرال صاحب کے گھر چھکڑیاں ڈولی کے ذریعے نالہ عبور کر کے پہنچے، جہاں انکے والدین نے سب ٹیم ممبرز کے سروں پر دست شفقت رکھا، بھرپور مہمان نوازی کی اور انکے والد گرامی کی ایمان افروز گفتگو سے مستفید ہونے کا بھی موقع ملا،اس کے بعد ماضی میں” روزنامہ شمال “میں انتہائی متحرک اور فعال کردار ادا کرنے والے دوست رانا عمران صاحب جو آج کل روزنامہ محاسب کے ساتھ منسلک ہیں اور علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے اپنا جاندار کردار ادا کر رہے ہیں انھوں نے اپنی گاڑی پر ہمیں واپس مظفرآباد پہنچایا.
اس سفر کے اختتام پر دوستوں کا یہ کہنا تھا کہ وادی نیلم کی طرح اگر حکومت اور دیگر ذمہ دار ادارے مقامی کمیونٹی کے اشتراک سے ماحول دوست سیاحت کو فروغ دینا چاہیں تو یہ اس علاقے کے عوام کے ساتھ بڑی نیکی تصور ہو گی شوگراں ویلی سے مکڑا ٹاپ اور پھر وادی کوٹلہ میں متعدد ایسے خوبصورت مقامات ہیں جہاں سیاحوں کی بھرپور مہمان نوازی کی جا سکتی ہے اور اس سے عوام کو گھر بیٹھے باعزت روزگار بھی میسر آئے گا اور کشمیر اور پاکستان کے رشتے مذید مضبوط ہونگے مگر اس سے قبل سڑکوں کی حالت بہتر بنانے، سہولیات سے آراستہ رہائش گاہوں کی تعمیر، مقامی لوگوں کی تربیت اور قدرتی وسائل کا تحفظ بہت ضروری ہے اگر ایسا ہو جائے تو وادی کوٹلہ کو ایک مثال کے طور پر دنیا بھر میں پیش کیا جا سکے گا.