بشکریہ۔ سما ٹی وی امیر الدین مغل
وادی نیلم میں واقع آزادکشمیر کی بلند ترین اور اب تک ناقابل تسخیر چوٹی سروالی کو سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی باقیات کا نو سال بعد سراغ لگا لیا گیا ہے۔
سطح سمندر سے 6326 میٹر اور 20،755 فٹ بلند سروالی چوٹی وادی نیلم کی سب ویلی شونٹھر میں واقع ہے جس کو اب تک کوئی سر نہیں کر سکا الپائن کلب پاکستان کے تعاون سے اس چوٹی کو سر کرنے کی مہم کے دوران اگست 2015 کو تین کوہ پیما عمران جنیدی، عثمان طارق اور خرم راجپوت اس وقت لاپتہ ہو گئے جب وہ تقریبآ 1800 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ چکے تھے۔
اس واقعہ کے فوری بعد ان لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے پاکستان آرمی اور ماہر کوہ پیماؤں کی مدد سے کئی دن تک سرچ آپریشن کیلئے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا گیا لیکن کامیابی حاصل نا ہوسکی تلاش میں اس لئے بھی مشکلات آرہی تھی کہ کوہ پیماؤں کے لاپتہ ہونے کے بعد اس علاقے میں تازہ برفباری ہو گئی تھی جس سے نشانات ملنا نا ممکن ہو گئے تھے۔
لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے جون 2022 میں بھی ایک ٹیم نے سرچ آپریشن کیا لیکن جون کے مہینے میں برف ذیادہ ہونے کی وجہ سے یہ آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نا کر سکا۔
اگست 2024 میں سرچ آپریشن کیلئے جانے والی چار رکنی ٹیم جس کی ٹیم لیڈر عمران عارف تھے ٹیم میں کوہ پیما عدنان سلطان ،مقامی گائیڈ الطاف احمد اور پوٹر رفیق شامل تھے نے سرچ آپریشن میں حصہ لیا۔
سرچ آپریشن ٹیم کے لیڈر نے سما کو بتایا کہ شونٹھر میں دومیل بالا سے چھ گھنٹے پیدل سفر کے بعد سروالی گلیشیئر ویو پوائنٹ پر قیام کیا اور اگلے روز انہوں نے اپنا سفر اس ٹریک پر شروع کیا جس پر کوہ پیما لاپتہ ہوئے تھے پہلے ڈرون کی مدد سے تلاش کی گئی کامیابی نا ملنے پر عملی طور پر تلاش کا فیصلہ کیا اس دوران شدید سردی اور دھند کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تلاش کے دوران گروپ ممبر مقامی گائیڈ الطاف کو 5700 میٹر 18700 فٹ بلندی پر ان لاپتہ کوہ پیماؤں کی باقیات سب سے پہلے نظر آئیں۔
عمران عارف کے مطابق ان باقیات میں انسانی اعضا لاپتہ کوہ پیماؤں کے استعمال کی اشیا لباس وغیرہ شامل ہیں تاہم اتنے سال گزرنے کے بعد لاشوں کی شناخت ممکن نہیں۔
یہ باقیات یقیناَ ان تین کوہ پیماؤں کی ہی ہیں کیوں کہ اور کسی کی باقیات کا یہاں موجود ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ اب تک کوئی کوہ پیما اس مقام تک نہیں پہنچا اور نا ہی ان سے قبل کوئی یہاں کوئی لاپتہ ہوا۔
عمران عارف کے مطابق لاپتہ کوہ پیماؤں کی ملنے والی باقیات میں کپڑے ،ایک پرچم، جوتے کے اوپر پہننے والا کور وہی ہے جو انہوں مہم پر روانگی کے وقت پہن رکھا تھا۔
عمران عارف کا کہنا تھا کہ اگست کے آخری ہفتے تک موسم کی صورتحال بہتر نہیں وقفے وقفے سے بارش ہو تی ہے دھند بادل چھائے رہتے ہیں جس کی وجہ سے حد نگاہ نا ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ چونکہ یہ سروالی ناگا پربت کے سامنے واقع ہے یہاں ٹھنڈی اور تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ اس لئے اگست کے آخری ہفتے میں ان باقیات کو لانے کیلئے ایک ٹیم جائے گی اس سلسلہ میں الپائن کلب پاکستان کو تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔باس آپریشن کیلئے پاکستان آرمی سے مدد لینے کی کوشش بھی کیجائے گی ہیلی کاپٹر سے ان باقیات کو با آسانی لایا جا سکتا ہے لاپتہ کوہ پیما عمران جنیدی کے بھائی اکرام جنیدی نے سما کو فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سروالی پیک پر سرچ آپریشن کیلئے جانے والی ٹیم کی طرف سے ان کو لاپتہ کوہ پیما کی باقیات ملنے کی اطلاع دی گئی ہے کہ ٹیم کو اس سرچ آپریشن کے دوران کچھ باقیات ملی ہیں مگر ان تک کوئی ایسی چیز نہیں پہنچی فوٹو یا ویڈیو کی صورت میں اکرام جنیدی کا کہنا تھا کہ سرچ کرنے والی ٹیم کے پاس ضرور یہ شواہد موجود ہوں گے انہوں نے بتایا کہ وہ اگلے چند روز میں الپائن کلب ہے ساتھ ملکر ٹیم لیکر جانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اس سلسلہ میں وہ ضلع نیلم کی انتظامیہ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ضلع کے حکام کے رابطے میں ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ضلع نیلم ہے انچارج محمد اختر ایوب نے سما کو بتایا کہ انہوں نے لاپتہ کوہ پیماؤں کے اہل خانہ کے افراد سے رابطہ کیا ہے اگر باقیات کو لانے کیلئے کوئی ٹیم آتی ہے تو ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا اس سلسہ میں ضلع نیلم کی انتظامیہ پاک فوج سے بھی تعاون کیلئے کہا جائے باقیات لانے کیلئے آنے والی ٹیم کے ساتھ ہماری ٹیم سر والی بیس کیمپ میں موجود رہ کر اس آپریشن کی مکمل نگرانی کرے گی۔
سروالی اب تک نا قابل تسخیر کیوں ہے ؟
سرچ آپریشن کرنے والی ٹیم کے لیڈر عمران عارف کا کہنا تھا کہ اگر کے ٹو سر ہو سکتا ہے تو یہ چوٹی بھی سر ہو سکتی ہے اس کیلئے جامع پلاننگ کی ضرورت ہے اس سرچ آپریشن کے دوران ہمارا مقصد نا صرف لاپتہ کوہ پیماؤں کی باقیات کی تلاش تھا بلکہ اس چوٹی کو سر کرنا بھی تھا لیکن باقیات کی تلاش پر ہماری توجہ مرکوز رہی اس لئے چوٹی سر کرنے کا ہدف پورا نا ہو سکا۔
عمران عارف نے بتایا کہ اس چوٹی کو سر کرنے کے دو راستے ہیں ایک وہ جس پر تین کوہ پیما لاپتہ ہوئے یہ راستے کافی لمبا ہے جس پر دو سے تین دن بیس کیمپ سے آگے لگ سکتے ہیں جبکہ ایک مختصر راستہ بھی ہے جس پر چل کو ایک یا ڈیڑھ دن میں چوٹی عبور کی جا سکتی ہے اس راستے کا کچھ حصہ خطرناک اور مشکل ہے اور چوٹی کے قریب کا باقی حصہ قدرے آسان ہے۔
آزادکشمیر میں کوہ پیمائی کے شعبے پر توجہ کیوں نہیں؟
آزادکشمیر کی وادی نیلم میں سترہ ہزار سے لیکر تقریباً اکیس ہزار فٹ تک بلند کئی پہاڑی چوٹیاں ہیں جن کو ابھی تک سر نہیں کیا جا سکا جس میں سروالی کے علاوہ ہری پربت بھی شامل ہے
بنیادی طور پر پہاڑوں پر جانے والے افراد کا آزادکشمیر کے محکمہ سیاحت اور دیگر اداروں سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا نا ہی ان افراد کا کوئی ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔
لاپتہ ہونے والے کوہ پیما بھی حکومت آزادکشمیر کے کسی ادارے کے ساتھ رابطے کے بغیر ہی اس مہم پر چلے گئے تھے اداروں کو بھی 2015 میں حادثہ کے بعد اس مہم کا علم ہوا
اس حوالے سے حکومت آزادکشمیر کی ایڈیشنل چیف سیکریٹری جن کے پاس سیکرٹری سیاحت کا چارج بھی ہے محترمہ مدحت شہزاد سے رابطہ کرکے ان کو واٹس سوالات پوچھے گئے تاکہ ان کا موقف معلوم کیا جا سکے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا
جبکہ ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر ندیم جنجوعہ سے بھی رابطہ کرنے کے کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے بھی ہوئی جواب نہیں ملا۔
کوہ پیمائی سمیت آزادکشمیر میں مہماتی سیاحت کے بیشمار مواقع موجود ہیں لیکن حکومت اس حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی وضع نہیں کر سکی ۔