تحریر: شافعہ خان
کراچی جیسے پررونق شہر کو چھوڑ کر اڑنگ کیل گاؤں میں بسنے کے بعد بےشمار لوگوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ شہر سے گاؤں میں رہنے کے بعد زندگی میں کیا تبدیلی آئ۔۔۔ ان تمام لوگوں کو میں نے اب تک کوئی خاص جواب نہ دے سکی اور سوچتی رہی کہ وقت آنے پر تفصیلی جواب دوں گی پہلے مجھے دوسری زندگی کو سمجھنا ہوگا اور آج ڈھائ سال اڑنگ کیل سے وابستہ رہنے کے بعد میں شہر اور گاؤں کی زندگی میں فرق کرنے کے قابل ہو چکی ہوں۔۔۔
زمانہ ملازمت سے ہی میں شہری زندگی سے اکتا چکی تھی مجھے محسوس ہوتا کہ شہر میں لوگ صرف اپنا اسٹیٹس بڑھانے میں مگن ہیں۔۔۔ لوگ رشتوں سے عاجز آچکے ہیں، لوگوں کی ترجیحات فقط اچھے سے اچھا برانڈ خریدنا ہے۔۔۔مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ شہر میں لوگ مادہ پرستی میں ڈوب چکے ہیں، جھوٹ اور دھوکہ ان کی عادات میں شامل ہو چکا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
میں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ لیتے ہوئے گھر والوں کو بتایا کہ میں کراچی میں شادی کرنا نہیں چاہتی، میں کسی پہاڑی علاقے میں رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ تب میرے گھر والے اس بات کو مذاق سمجھتے رہے اور کہتے رہے” چار دن میں ہی شوق پورا ہو جاتا ہے ” میرے والد نے مجھے کہا کہ اگر تم ایک مہینہ وہاں گزار کر آگئیں اور تمہیں کوئی پریشانی نہ ہوئی تو میں تمہیں وہاں رہنے کی اجازت دے دوں گا۔۔۔ لیکن میں جانتی تھی کہ وہ فقط مذاق کر رہے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے مجھے کبھی بھی جانے نہیں دیں گے۔۔۔
مجھے سال میں تنخواہ کے علاوہ جو بونس ملتا تھا اس کو میں گھومنے پھرنے میں خرچ کر دیا کر دیتی تھی۔۔۔
اکثر رشتےداروں کا مجھ سے یہ سوال ہوتا تھا کہ اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں جو اتنا گھومتی پھرتی رہتی ہو؟۔۔۔ میں ہنس کر بات ٹال دیتی تھی۔۔۔ اس کا جواب تو کسی غیر کو بھی پتا ہونا چاہیے کہ میرے کون سے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے رو رہے تھے، جو کماتی تھی اس میں سے کچھ حصہ سال میں دو بار گھومنے پھرنے میں خرچ کرتی تھی۔۔۔
بچپن سے ہی مجھے اپنے لیے زیادہ چیزیں خریدنے کا شوق نہیں تھا مجھے صرف ایک ہی چیز پسند تھی ” سمندر “۔۔
یہ محبت جوانی میں پہاڑوں اور جنگل نے لے لی۔۔۔ جب میں نے اپنی کتاب لکھی تب مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں ایک دن ہمیشہ کے لیے کشمیر آجاؤں گی۔۔۔ اور جس دن میری شادی تھی خوشی کے مارے میری جان نکلی جا رہی تھی، ہنسی تھی کہ بار بار لبوں کو چھو رہی تھی۔۔۔ لوگ دیکھتے تو یہ سمجھتے شاید محبت کی شادی ہو رہی ہے۔۔۔ مگر میں شاید پہلی دلہن ہوں گی جس کو یہ بھی ہوش نہ ہو ہوگا کہ اسکا دولہا کیسا ہے۔۔۔ کیا کرتا ہے۔۔۔ میں تو اس لیے خوش تھی کہ اب میں ہمیشہ کے لیے اڑنگ کیل جارہی تھی۔۔۔ ( سوری ہبی )
شادی کے بعد جب میں اڑنگ کیل آئ تب آہستہ آہستہ مجھ پر آشکار ہوا کہ ایک سیاح کے طور پر رہنا بالکل الگ ہوتا ہے اور مقامی کے طور پر رہنا الگ۔۔۔ میرے گھر والے سمجھتے تھے کہ میں وہاں زیادہ عرصہ نہیں رہ پاؤں گی لیکن مجھے ایسی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔ وہاں ہر چیز ہی موجود ہے مگر گیس نہیں ہے شروع میں لکڑیاں جلانے میں بہت مشکل ہوئی دو تین بار ہاتھ جلا لیا مگر اس کے بعد ہسبنڈ مجھے لکڑیاں جلا کر دینے لگے اور میں کھانا پکا لیتی۔۔۔ اور اب میں لکڑیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی جلا لیتی ہوں ۔۔۔
جہاں تک خوبیوں کی بات کی جاۓ تو مجھے ماحول اور آب و ہوا بہت راس آئ۔۔۔ وہاں کی خوراک دیسی لوبیا، سبزی، دودھ مجھے بہت پسند ہے اور صحت کے لیے بہت اچھی ہے۔۔۔ لیکن پانی بہت ٹھنڈا ہے انسان منہہ بھی سوچ سوچ کر دھوتا ہے نہانا تو خیر کبھی کبھی کی بات ہے۔۔۔
ایک مقامی کے طور پر پہاڑوں میں رہنا اور ایک سیاح کے طور پر رہنا بہت مختلف ہے۔۔۔ جو چیزیں میں نے ایک مقامی کے طور پر سمجھی اور محسوس کی ہیں انکا میں ایک سیاح کے طور پر کبھی بھی بھی تجربہ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کے پہاڑوں کی زندگی شہر کی نسبت مشکل ہے مگر میرے نزدیک مشکلات دونوں جگہ ہیں، پہاڑی زندگی میں جسمانی مشقت زیادہ ہے اور شہری زندگی میں ذہنی مشقت زیادہ ہے۔۔۔
لیکن ایک بات میرے گمان کی غلط ثابت ہوئی کے پہاڑی یا گاؤں کے لوگ سادگی پسند ہوتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، سادگی گاؤں یا شہر سے منسوب نہیں ہے یہ انسان کی فطرت سے منسوب ہے، مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہاں بھی لوگ پیسہ دیکھ کر لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں، وہاں بھی جب کسی کے پاس چار پیسے آجائیں تو گردن اکڑ جاتی ہے بلکہ شہری خصوصاً کراچی کے لوگ کسی کے پیسے اور حسب نسب سے مرعوب نہیں ہوتے، شہر کی نسبت گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کی نقل کرتے اور ٹوہ زیادہ لیتے ہیں شاید یہ بھی انسانی فطرت میں شامل ہو اگر شہری لوگوں کے پاس کثیر وقت ہوتا تو وہ بھی ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہتے۔۔۔ اور جہاں تک اچھے اور برے لوگوں کی بات ہے وہ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہے کسی مخصوص جگہ کے لوگ مکمل طور پر اچھے یا برے نہیں ہو سکتے، گاؤں میں بیشتر لوگ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک رکھتے ہیں ذاتی طور پر مجھے ان لوگوں سے کوئی خاص شکایت نہیں ہے۔۔۔
اب میں دو ایسی بےوقوفانہ باتوں کے جواب دوں گی جو تقریباً ہر نئے سیاح کے دماغ میں گھومتی ہیں۔۔۔
1)اس پہاڑ کے پیچھے کیا ہے؟
یہ سوال میں نے بہت سے لوگوں کو کرتے سنا ہے کہ ہمیں یہ شوق ہوا کہ دیکھیں اس پہاڑ کے پیچھے کیا ہے؟۔۔۔ شاید کسی وقت یہ سوال میرے دماغ میں بھی ہوتا تھا مگر بہت سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہر پہاڑ کے پیچھے ایک اور پہاڑ ہوتا ہے اس کے پیچھے ایک اور پہاڑ ہوتا ہے پھر ایک اور پہاڑ ہوتا ہے۔۔۔ دراصل پہاڑ کہیں بھی اکیلا نہیں ہوتا سواۓ کراچی کی کٹی پہاڑی کے۔۔۔ پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو کسی خوبصورت نالے یا وادی یا دریا سے جا کر ملتا ہے اور ان نالوں کے آس پاس خوبصورت چراہ گاہیں بھی موجود ہوتی ہیں۔۔۔
2)دوسری احمقانہ بات بھی میں نے بہت سے سیاحوں سے سنی ہے کہ کاش ہم ان پہاڑوں میں ہی مر جائیں یا گم ہو جائیں۔۔۔ اس بات کا جواب تو مجھے پہلے بھی معلوم تھا اور اب زیادہ بہتر معلوم ہے کہ پہاڑ جس قدر دلکش نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ وحشت اس میں موجود ہوتی ہے۔۔۔ وہ وقت انتہائی خوفناک ہوتا ہے جب آپ اکیلے بے یارومددگار پہاڑوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اپنی موت کو قریب سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اس میں قدرتی حادثات ایک طرف ہیں مگر شہری خواتین جو دوران زچگی لاکھوں روپے نجی ہسپتالوں میں خرچ کر کے ایک بچے کو جنم دیتی ہیں وہ اس بات کا کبھی تصور بھی نہیں کر سکتیں کے پہاڑوں میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے یا گھر میں تن تنہا کسی ہسپتال سے کوسوں دور دوران زچگی موت سے لڑنا کس قدر مشکل ہے وہ صرف پہاڑوں میں رہنے والی خواتین ہی بتا سکتی ہیں۔۔۔ پہاڑی عورت کی اس ہمت کا مقابلہ بڑے سے بڑا کوہ پیمہ، ٹریکر یا کوئی طرم خاں نہیں کر سکتا۔۔۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں پہاڑی زندگی سے تنگ آگئی ہوں یا آجاؤں گی، تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے وہاں رہنے کا فیصلہ بھی میرا تھا اس پر مجھے کوئی ملال نہیں اور اگر کبھی میں وہاں سے جانے کا فیصلہ کروں گی اس پر بھی مجھے کوئی ملال نہ ہوگا، کیوںکہ اپنی زندگی کے فیصلے میں نے ہمیشہ خود کئے ہیں اور مجھ سے کوئی غلط فیصلہ ہو بھی جاۓ تو مجھے اسکی تلافی کرنا آتی ہے ان پر میں کبھی پچھتائ نہیں۔۔۔ اب بھی اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ شہری آسائش بھری زندگی اور پہاڑی زندگی میں سے ایک کو چننا ہو تو میں پہاڑوں کو ہی چنوں گی۔۔۔
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو