تحریر:شعیب علی جموال اینڈ ساجد منان گُریزیؔ
قسط نمبر ….2
”جنتوں کے اس سفر میں ملنسار جو ملے کمال تھے
چاہتوں سے بھری نگاہیں جذبے ان کے با کمال تھے
میری راہ گزر رہی جن وادیوں جن راستوں سے
یہ لوگ یہ شخص وطن پرست ، نڈر اور باوقار تھے.“
میں کوئی اتنا بڑا شاعر تو نہیں مگر وطن کی محبت اور وطن پرستوں کی محبت میں چند ایک مصرے لکھ دیتا ہوں اُمید ہے پڑھنے والوں کو پسند آتے ہوں گے کیونکہ میں جو لکھتا ہوں دل سے لکھتا ہوں اور دل سے لکھی گئی چیز کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔
خیر کوٹلی سٹی میں کامریڈ برادر قاسم اور تھلہیر پل پر برادر فیاض بھٹ صاحب کو الوداع کہنے کے بعد ہم پرسکون ماحول میں تقریباً 50 منٹ بعد وادی تتہ پانی میں داخل ہوئے۔
تعارف تتہ پانی ویلی
( تتہ پانی دریائے پونچھ کے ساتھ ایک خوبصورت ویلی ہے اور عین سیز فائر لائن پر واقع ہے یہاں کے لوگ با ہمت با جرت اور مہمان نواز ہیں یہاں گرم پانی کا ایک بہت بڑا چشمہ ہے جس سے نکلنے والا دھواں اور ساتھ بہتا دریائے پونچھ آنے والے سیاح حضرت کو ایک علیحدہ ہی سرور دیتا ہے
یہاں گورنمنٹ کی طرف سے ایک گیسٹ ہاؤس بھی قائم کیا گیا ہے اور ایک ایک پارک بھی بنائی گئی ہے جبکہ چشمے کے پاس سیاحتی مقام ہونے کے باوجود کوئی صفائی ستھرائی دیکھنے کو نہیں ملتی یہاں پانی کے اندر اور باہر جگہ جگہ پلاسٹک ساشے بکھرے ہوئے تھے
مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اور گورنمنٹ کے محکمہ سیاحت کی نااہلی سے ایک سیاحتی مقام دن بدن بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے بحثیت باشندہ اول ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا میری عوام علاقہ اور محکمہ آثار قدیمہ سے گزارش ہے کہ اس چیز پر توجہ دیں )
میں پہلے بھی کافی دفعہ یہاں وزٹ کر چکا تھا ساجد بھائی پہلی دفعہ یہ منظر دیکھ رہے تھے وہ اس قدرت کی طرف سے ایک منفرد تخلیق کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے۔
تتہ پانی سے نکلنے کے بعد ہم منڈھول ویلی میں داخل ہوئے منڈھول ویلی دریائے پونچھ کے ساتھ ساتھ ہے اور اپنی خوبصورتی میں ایک مثال ہے بل کھاتی ہوئی سڑک اس سڑک کے اطراف میں لگے درخت پھلدار پودے اور پھول دار درخت و پودے اطراف میں گھومتے مال مویشی اور چرند پرند ۔ مہمان نواز و محب وطن لوگ اس ویلی کو چار چاند لگاتے ہیں موسم خزاں میں سڑک کے اطراف میں لگے درختوں کے پتے جب زرد رنگ اختیار کرتے ہیں تو یہ ویلی ہنزہ گلگت کا نظارہ پیش کرتی ہے۔
افتخار آباد چھمب ضلع بھمبر سے لے کر تاو بٹ ضلع نیلم تک یہ ویلیز جتنی خوبصورت ہیں اتنا ہی خطر ناک بھی کیوں کے پچھلے کچھ 75 برس سے ان حسین وادیوں کو کافر و منافق نے اپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے اور جب ان کا دل چاہے یہ یہاں خون کی ہولی کھیلتے ہیں جس سے لاکھوں بشندگان جموں کشمیر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
ہم چلتے چلتے آخر ایک شاہکار کے پاس پہنچے اس سے قبل بھی میں یہاں 2 دفع آ چکا تھا آخری دفع میں اور برادر معظم خان کملا منگرال یہاں آئے تھے روڈ پر موٹرسائیکل کھڑا کیا اور کھیتوں سے گزر کر اس کی چار دیواری کے اندر چلے گئے۔
وادی منڈھول کے بیچ میں ناگ دور یا بدھ دور کا بنا ایک شاہکار ہے جسے نااہل محکمہ آثار قدیمہ نے فورٹ آف ہجیرہ کا نام دے رکھا ہے حالانکہ یہ قلعہ ہے ہی نہیں اور اس کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ وہ خوبصورت پھول تھا جو مالی کی عدم توجہ کی وجہ سے مرجھا گیا باہر روڈ سے یہ صرف ایک درختوں کا جھنڈ نظر آتا ہے یہاں پہنچنے کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں دیا گیا یہ میں روڈ سے دو منٹ کی پیدل مسافت پر ہے اور اس بے درد معاشرے میں اپنے آخری سانس لے رہا ہے۔
یہ اس قدیم دور کی ( دھرم شالہ، یونیورسٹی یا ایسی کوئی درسگاہ ہے یا ایسا کہہ لیں کہ شاردہ پیتھ کی یہ ذیلی شاخ تھی یا شاردہ یونیورسٹی اس کی ذیلی شاخ جو موسمی تبدیلیوں کے لحاظ سے 6 ،چھ ماہ آباد اور چھ ماہ بند رہتی تھیں ۔
یہ میری اس پر ذاتی تحقیق و رائے ہے میں نے اور ساجد بھائی نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے مگر کوئی خاص تاریخ نہیں مل سکی۔
البتہ جو معلومات اگھٹی ہوئی اور اس کے میٹیریل پر جو ریسرچ ہوئی انشاءاللہ وہ اگلی قسط میں تفصیل سے لکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے