وادی کی تحریک اور مقبول بٹ کے افکار اور نظریات

شئر کریں

تحریر: شمس الرحمن

31 جولائی 1988 کو ‘مسلح جدوجہد’ شروع ہو گئی دو بم دھماکوں کے ساتھ۔ ایک ٹیلی گراف آفس میں دوسرا گاف کورس یا ( بقول معتبر صحافی یوسف جمیل) سری نگر کلب کے پاس ۔ پھر بتدریج مقبول بٹ کی تصاویر اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پرچم بھی مظاہروں میں نمودار ہونے لگے۔ میں 09 اگست 1988 کو ” پکا پکا ” ولایت یعنی برطانیہ آ گیا تھا۔ یہاں مقصد اس تحریک کی تفصیلات میں جانا نہیں ۔ اس میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بیسیوں کتابیں اور مضامین و انٹرویز وغیرہ دستیاب ہیں۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ وادی میں ایک زبردست عوامی احتجاج پیدا ہوا تھا انتخابات میں دھاندلی کے خلاف۔ عوام کی بھاری حمایت حاصل تھی ‘ مف’ کو۔ تاہم یہ نظریہ کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرنی ہے جو اب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور پاکستانی ایجنسیوں کا مشترکہ نظریہ بن گیا تھا اس کے زیر اثر مسلح کاروائیاں شروع ہو گئیں۔ چونکہ قومی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا نظریہ ‘آزاد’ کشمیر میں مقبول بٹ اور امان اللہ کی قیادت میں این ایل ایف نے پیش کیا تھا اور جے کے ایل ایف جو برطانیہ میں قائم ہو کر وہاں سے آزاد کشمیر اور پھر وہاں سے وادے کشمیر میں آیا تھا اب اس کا وارث بن کر ابھرا تھا اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مقبول بٹ نے صرف بندوق بازی کو مسلح جدوجہد نہیں سمجھتے تھے ، خاص طور سے جب بندوق اپنی نہ ہو اور اس سے بھی زیادہ اہم بات ک ملک کے ایک حصے پر قابض سے لے کر ملک کے دوسرے حصے پر قابض کے خلاف استعمال کرنی ہو۔ اس حوالے سے مقبول بٹ نے جو مکالمہ ساٹھ کے عشرے میں پاکستانی اداروں کے ساتھ کیا تھا کہ میں اس گھوڑے پر سواری کیسے کر سکتا ہوں جس کی لگام میرے ہاتھ میں نہ ہو ، مقبول عام ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اس حصے یا اس ذینیت و حکمت عملی کے بارے میں مقبول بٹ کی کیا سوچ تھی جن کو سیاسی اصطلاح میں ‘ توسیع پسند’ کہا جاتا ہے ، اس کی تفصیلات گنگا کیس میں ان کے عدالتی بیان میں موجود ہیں ۔ یہ بیان سعید اسد کی ‘ دیوانوں پہ کیا گذری’ اور خواجہ رفیق کی ‘ سفیر حریت ‘ میں شامل ہے۔ میرے خیال میں یہاں مقبول بٹ کی زندگی کے آخری انٹرویو میں ان کے نظریات کے بارے میں سوالات کے جوابات کا خلاصہ پیش کرنا موزوں رہے گا جو انہوں نے میں 1983 تہار جیل کے اندر کم کم چڈا کو دیا تھا۔ مقبول بٹ کی فکر و نظریے کو سمجھنے کے لیے اس انٹرویو کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔
مقبول بٹ کا آخری انٹرویو اور نظریات کا خلاصہ
انٹرویو کا پہلا سوال مقبول بٹ کے نام کے بارے میں تھا کہ اس میں کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ جو کہ بالکل درست ہے کیونکہ عبدالخالق انصاری صاحب کی کتاب میں بھی جگہ جگہ مقبول احمد بٹ لکھا ہوا ہے جبکہ جیسا کہ انہوں نے انٹرویو میں جواب دیا ان کا پورا نام تھا ‘ محمد مقبول بٹ’۔ شعور فردا میں ان کے خطوط کے آخر میں بھی واضح طور پر محمد مقبول بٹ لکھا ہوتا تھا۔ اب آئیے نظریاتی حوالے سے کم کم چڈا کے سوالات اور مقبول بٹ کے جوابات پڑھتے ہیں اور پھر غور کرتے ہیں کہ ان کے سیاسی نظریات کیا تھے۔
بچپن کی یادیں جنہوں نے اثرات چھوڑے ہوں یا جن کے زیر اثر شخصیت کی ابتدائی تشکیل پائی؟
بچپن کی خوشگوار یادیں وہ ہیں جو میرے والدین اور گاؤں کے حلیم انسانوں سے ملنے والے پیار و محبت اور شفقت سے بُنی ہوئی ہیں جبکہ تلخ یادوں کا تعلق جاگیردارانہ نظام کے ظالمانہ اور جابرانہ استحصال کے سامنے میرے گاؤں کے کسانوں کی بے بسی اور بے کسی سے ہے۔ اس کے مظاہرے ہر سال فصلوں کی کٹائی کے مواقعوں پر دیکھنے کو ملتے تھے۔ میری ابدتائی زندگی پر میرے والدین اور اساتذہ کا گہرا اثر رہا ہے۔
کیا آپ مذہبی ہو؟
میں اس اصطلاح کے روایتی معنوں میں گہرا مذہبی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ تاہم میری سوچ و فکر کی نشوونما اور زندگی کی راہ متعین کرنے میں میرے مذہبی مطالعے کا گہرا عمل دخل ہے۔ میرے خیال میں مذہب کے بغیر معاشرے کی اخلاقیات، شرافت اور شائستگی کی بنیادیں آخر کار ڈھیر ہو جاتی ہیں۔تبدیلی پسندوں اور اصلاحات کاروں ( مصلحین ) کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء میں مذہب کے تاریخٰ کردار کے علاوہ مذہب اب بھی معاشرتی زندگی کی ایک اہم معروضی حقیقت ہے اور رہے گی جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یعنی جو نظر انداز کر دینے یا خواہش کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔ ذاتی طور پر میں مسلمان ہو لیکن ایمان جس کو قران میں دین کہا گیا ہے کی اپنی سمجھ کے مطابق۔ میں نے اسلام کا جو مطالعہ کیا ہے وہ اگرچہ بہت زیادہ نہیں تاہم اس نے میری شخصیت کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آپ کا ایمان/ عقیدہ کیا ہے؟
انسانی مساوات جس کو سماجی انصاف کے ساتھ لازم و ملزوم ہونا چاہیے میرے سماجی عقیدے کی بنیاد ہے۔اس سے متعقلہ باقی سب کچھ اس بنیادی منبع سے پھوٹتا ہے۔ ایسا معاشرہ میرے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کے بغیر شاید خود میرا اپنا وجود بھی ممکن نہ ہو۔
آپ کا سیاسی ایمان کیا ہے؟
تمام انسانوں کے لیے سوچ و فکر کی آزادی اور اس کے اظہار کے حق کے لیے منظم اور عملی جدوجہد کی آزادی میرے سیاسی ایمان کی بنیاد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس تصور کو اطمنیان بخش طور پر عملی جامہ پہنانے کی ضمانت ایک جمہوری معاشرے میں ہی ممکن ہے۔ سیاسی نظریے کی اصطلاح آج کل دائیں یا بائیں بازو کی طرف رغبت کے مترادف لی جاتی ہے ۔ تاہم میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ میرے سیاسی نظریے کی بنیاد یہ ایمان ہے کہ تمام افراد کو اپنے حال اور مستقبل کے حالات کو اپنی امنگوں اور خواہشات کے مطابق بغیر کسی بیرونی دباؤ، مداخلت اور جبر کے عوامی رائے کے ذریعے تعمیر کیے گئے اداروں کے ذریعے متعین کرنے کا حق حاصل ہے ۔
کیا آپ عورتوں کے ساتھ امتیاز / تفریق کو مانتے ہیں؟
نہیں میں سماجی معاملات اور رشتوں کے حوالے سے میں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز کی حمایت نہیں کرتا۔ میرے خیال میں معاشرتی ذمہ داریاں نباہنے اور معاشرے کی طرف سے دیے گئے حقوق اور سہولیات برتنے میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ برابر کی شرکت کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ معاشرتی ترقی کے عمل کو متوازن اور ہم آہنگ رکھنے کے لیے اس میں عورتوں کا بھی اتنا ہی اہم کردار بنتا ہے جتنا مردوں کا۔
آپ پردے کی حمایت کرتے ہیں؟
اس وقت پردے کا جو رواج مسلمان معاشروں میں رائج ہے میں اس کی حمایت نہیں کرتا۔ اس میں عورت کو گھر کے اندر بند کر کے مرد کے احساس برتری کے جنون کو سہنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سماجی زمہ داریاں نباہنے اور کردار ادا کرنے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ اس عہد کی باقیات ہیں جب اسلام تہذیب زوال پذیر تھی اور یہ مسلمانوں میں فرسودہ اور رجعتی ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاہم میں قران پاک میں عورتوں کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ سر عام اپنی نسوانی دلکشی اور جسمانی اعضا کو ایسے پیش نہ کریں کہ مردوں میں نفسانی اور شہوانی خواہشات کو اکساتی ہوں ۔
کیا آپ عورتوں کی آزادی کے حامی ہیں
میں عورتوں کی آزادی کی حمایت کرتا ہوں لیکن مغربی معنوں میں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمار سماجی تناظر بالکل مختلف ہے۔ میں معاشرے کے ان تمام سماجی گروہوں کی آزادی کی حمایت کرتا ہوں جو اس ترقی یافتہ تہذیبی عہد میں بھی جبرواستحصال کو سہہ رہے ہیں۔
کتاب میں اس انٹرویو کا مکمل ترجمہ شامل کیا جائے گا ۔ یہاں صرف اس کے سیاسی پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔
اس انٹرویو کو غور سے پڑھ کر سوچیں ۔ اس وقت ان کے ان نظریات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ایک بار پھر بٹ صاحب کے مخلص اور جذباتی پیروکاروں کو کسی اندھی گلی میں نہ جھونک دیا جائے ۔

مصنف کے بارے میں

Shams Rehman
Shams Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *