کشمیر میں نظریاتی سیاست کے اظہار اور سرگرمیاں
تحریر: شمس الرحمن
نظریاتی سیاست کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک نظریے کے لیے سیاست کر رہے ہیں یعنی آپ ایک نظریے کے پیروکار اور پرچارک ہیں اور آپ کی سیاست کا مرکزومحور اس کو لاگو کرنا ہے ، اس کا نفاذ کرنا ہے اس پر عمل درآمد کرنا اور کرانا ہے۔ تاہم جتنا بھی خلوص آپ کے دل و دماغ میں ہو، کتنے بھی دلیر اور جرات مند ہوں آپ لیکن اگر آپ کا نظریہ اس جگہ کے مادے حالات سے نہ پھوٹا ہو یا اس کو مقامی مادی حالات کے مطابق نہ ڈھالا گیا ہو تو اس نظریے کے لیے کی جانے والی جدوجہد وہ نتائج نہیں لا سکتی جن کے لیے آپ نے جدوجہد کی ہوتی ہے، قربانیاں دی ہوتی ہیں۔
آزاد کشمیر میں لبریشن لیگ، محاذ رائے شماری ، این ایس ایف اور این ایل ایف کے قیام کے بعد ‘متبادل اور مزاحمتی سیاست’ چار نظریاتی راستوں پر نکل پڑی۔ لبریشن لیگ آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کروا کر کشمیر کی آزادی کے لیے سفارتی محاذ پر جدوجہد کرنے کے راستے پر۔ محاذ رائے شماری پر امن جدوجہد کے ذریعے رائے شماری کا حق حاصل کر کے خود مختاری کے لیے ووٹ دینے کی طرف۔ این ایل ایف مسلح جدوجہد کے ذریعے ریاست جموں کشمیر کو بھارت سے آزاد کروانے کے لیے ۔ جب کہ این ایس ایف ایک غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کے قیام کی خاطر۔ ان چار سیاسی قوتوں کی عمومی سیاسی شناخت کی بات کر رہا ہوں ورنہ ظاہر ہے کہ ہر ایک کے اندر مختلف نظریاتی رنگ (شیڈز) پائے جاتے تھے۔
جہاں تک کے ایچ خورشید کی قیادت میں آزاد کشمیر کو مہاراجہ کی جانشین حکومت تسلیم کرانے کی جدوجہد کا تعلق ہے ، ایسا کچھ تو نہ ہوالبتہ کے ایچ خورشید کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوئے۔ 15 اگست 1964 کو استعفیٰ دینے کے بعد بھی انہوں نے آزاد کشمیر میں جمہوریت اور بااختیاری کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس دوران پاکستان کی فوجی حکومت اور وزارت خارجہ ( ایوب ، جنرل موسیٰ اور بھٹو ) کی طرف سے اگست 1965 میں اپریشن جبرالٹر کے نام سے ایک اور مہم جوئی شروع کر دی گئی جس نے نہ صرف ‘آزاد کشمیر ‘ بلکہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان و بھارت کے سیاسی دھاروں کو بھی اتھل پتھل کر دیا۔ تفصیلات اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہیں۔
آپریشن جبرالٹر: جنرل محمد موسیٰ کا فوجی کیریئر اور عسکری مہمات کے وہ منصوبے جن کا کوئی مالک نہیں – BBC News اردو
اپریشن جبرالٹر کا ‘ آزاد کشمیر’ کی نئی سیاسی قوتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہمارے لیے یہاں جاننا زیادہ اہم ہے۔ کے ایچ کورشید جنہوں نے 15 اگست 1964 کو استعفٰی دیا تھا انہیں اپریشن جبرالٹر کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ انہیں راولپنڈی میں غالباً میر واعظ مولوی یوسف کے گھر سے گرفتار کر کے دولائی کیمپ میں بند کر دیا گیا۔ انصاری صاحب لکھتے ہیں کہ کیسی ستم ظریفی تھی کہ ایک سال پہلے خورشید صاحب کی صدارت میں منگلا ڈیم مخالف تحریک کے کارکنان کو دولائی میں ڈالا گیا تھا۔
رہائی کے بعد کے ایچ خورشید نے جمہوری حقوق کی سیاست جاری رکھی یعنی قانون ساز اسمبلی کے قیام ، انتخابات اور آئین کے لیے۔ 1970 میں آزاد کشمیر کو ایک آئین نما چیز مل گئی۔ صدارتی انتخابات ہوئے جس میں مقبول بٹ سمیت آزادی پسندوں نے کے ایچ خورشید کی حمایت کی لیکن ‘ بتی’ کے مقابلے میں ‘ گھوڑا ‘ جیت گیا۔ کشمیر کو تسلیم کرو کے مقابلے میں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ گونجنے لگا۔
اپریشن جبرالٹر سے بہت پہلے جب سری نگر میں موئے مبارک ( حضور ؐ کے بال مبارک) کی چوری کے واقعے پر عوام احتجاج کر رہے تھے تو بھی ایک ‘ گوریلا فورس’ بھیجی گئی تھی جن کو بھارتیوں نے چند دنوں کے اندر اندر گرفتار کر لیا تھا۔
مقبول بٹ کے بارے میں ان کے عم عصر رہنماؤں سے سنا ہے کہ جب انہیں پاکستان کی طرف سے ‘گوریلے ‘ پار بھیجنے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس میں پاکستان ملوث نہ ہو بلکہ کشمیریوں پر اعتبار کرتے ہوئے ہمیں آزادانہ طور پر سرگرمیاں کرنے دی جائیں۔ ( معلوم نہیں کہ یہ این ایل ایف کے قیام سے پہلے کی بات ہے یا بعد کی) ۔ تاہم جب ان پر اعتبار نہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے طور پر گوریلا سرگرمیوں کا آغاز کر دیا جس کے لیے وہ پینسٹھ کی جنگ کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر گئے اور وہاں جا کر گوریلا ‘ سیل’ قائم کیے۔ گرفتاری کے بعد جیل توڑ کر واپس آئے تو وہ آزاد کشمیر کے نوجوانوں کے ہیرو بن چکے تھے اور محاذ رائے شماری جس نے ان کے ‘ پار’ جانے سے لاتعلقہ کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ایک طرح کی مہم جوئی قرار دیا تھا انہوں نے بھی کارکنان کا رحجان دیکھتے ہوئے مقبول بٹ کو محاذ کا صدر منتخب کر لیا۔ این ایس ایف سمیت آزاد کشمیر و پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیریوں کے دیگر چھوٹے بڑے رسمی اور غیر رسمی گروپ بھی مقبول بٹ کے اس دلیرانہ اقدام سے تحریک پکڑ رہے تھے ۔
اس دوران برطانیہ ہجرت میں بھی تیز رفتار اضافہ ہو رہا تھا۔ کم از کم میرپور میں قدیم زمانوں سے موجود معاشرے کی مادی جڑ بنیاد میں تبدیلی کا ایک ایسا عمل شروع ہو چکا تھا جس نے ڈیم کے اجاڑ کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ زمین کاشتکاری کی بجائے شے فروخت بن رہی تھی۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا ۔ جو نہ سنا نہ دیکھا وہ ہو رہا تھا ۔
آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں این ایس ایف ( سرکاری / حکومتی تنظیموں اور نظریوں کے مقابلے میں) تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔ 1970 کی دہائی تک سرخ اور سبز کی بحثیں نوجوانوں میں عام ہو رہی تھیں۔ ادھر الحاق پاکستان کا نعرہ سرکاری طور پر سکولوں میں لگوایا جانے لگا تو خودمختاری کے نعرے بھی گونجنے لگے۔ اس وقت تک عوام خود مختاری کی ایک ہی تنظیم تھی محاز رائے شماری ، اور 1971 میں گنگا ہائی جیکنگ کے بعد تیزی سے مقبول بٹ ہی خودمختاری کا استعارہ بن رہا تھا۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے ‘آزاد کشمیر’ کے مزاحمتی میدان میں نئی سیاسی قوتوں کے عشرے تھے۔ ان کی حمایت میں تیز رفتار اضافہ ہو رہا تھا ۔ تاہم یہ قوتیں گاہے گاہے ایک دوسرے کی حمایت ، خاص طور سے مقبول بٹ کے جیل سے فرار اور گنگا ہائی جیکنگ کے بعد ان کی حمایت کے باوجود کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر کوئی جدوجہد منظم نہ کر سکیں۔ ستر کے عشرے کے وسط میں الحاق ، قومی آزادی اور سوشلزم کے بیچوں بیچ خود مختار اسلامی ریاست کا نظریہ بھی نمودار ہونے لگا ۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ عبدالحمید دیوانی صاحب کے ساتھ لینڈ ہوا ۔ پہلے جیکفو یعنی جموں کشمیر فریڈم آرگنائزیشن بنی اور پھر جموں کشمیر فریڈم موومنٹ ۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آزاد کشمیر کے 70 کے آئین کو ختم کر کے 1974 کا ایکٹ دیا گیا جس میں خود مختار کشمیر کے نظریے اور سیاست پر آئینی پابندی لگا دی گئی۔ انتخابی یا اقتداری جماعتوں میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ خود مختاری کی حامی جماعتوں نے کھل کر مخالفت کی لیکن جلسوں اور اخبارات میں۔ کوئی مسلسل قانونی یا سیاسی مہم شروع نہ ہوئی۔
1974 میں خالق انصاری صاحب کو محاذ رائے شماری کا پھر سے صدر چن لیا گیا۔
اس دوران خاص طور سے منگلا کی تعمیر کے بعد جب گنگا کے بعد این ایل ایف ٹوٹ بکھر گئی تو برطانیہ جہاں اس وقت تک پہلے انڈی پنڈت کشمیر موومنٹ ، یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ اور پھر محاذ رائے شماری قایم ہو چکی تھیں وہاں آباد آزادی پسند کشمیری اپنا کردار متعین کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ بقول مرزا صدیق سربراہ محاز رائے شماری برطانیہ ، 1974/75 کے زمانے میں ہم ایک وفد کی شکل میں سری نگر گئے جہاں ہم نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کی اور انہیں برطانیہ آ کر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے کام کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے حامی بھر لی۔ لیکن ان کے ایک سینئیر رہنما جن کا نام مزرا صاحب کو یاد نہیں آرہا تھا بہت کوشش کی برطانیہ سے گئے کشمیری وفد سے اکیلے میں ملنے کی لیکن ‘ ہم نے سوچا کہ اب شیخ صاحب سے بات ہو گئی ہے تو کسی اور سے کیا ملنا’۔ مرزا صاحب نے افسوس اور پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شاید وہ ہمیں بتانا چاہتے تھے کہ شیخ صاحب تو اندرا کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ بہرحال محاذ رائے شماری اور نیشنل کانفرنس کے وہ بے نام رہنما جو بھی بتانا چاہتے تھے، ہوا یہی کہ شیخ صاحب نے سمجھوتہ کر لیا۔
اس کے بعد برطانیہ والوں نے یونائیٹڈ کشمیر پبلیکیشنز کی طرف سے، امان اللہ خان ، جی ایم میر اور صابر انصاری کو برطانیہ آنے کے لیے سپانسر بھیجے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقبول بٹ کو بھی سپانس بھیجا گیا تھا لیکن انہوں نے کہا تھا میں برطانیہ نہیں سری نگر جاؤں گا جہاں میری زیادہ ضرورت ہے۔ تاہم خالق انصاری صاحب کی کتاب میں ان کا نام نہیں لکھا ہوا۔ خالق انصاری صاحب کے لیے ظاہر ہے کہ برطانیہ آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ان کے بہت سے عزیز و اقارب وہاں آباد تھے۔ جی ایم میر صاحب کو ویزہ نہ مل سکا ۔ امان اللہ خان صاحب کو ویزا مل گیا ۔
بنیادی مقصد یہ تھا کہ دو تین کل وقتی رہنما آکر برطانیہ میں تحریر و تشہیر اور سفارتی میدانوں میں کام کریں۔ 1976 میں عبدالخالق انصاری ، امان اللہ خان، صابر انصاری، نذیر نازش ، عبدالجبار بٹ اور کئی دیگر آزادی پسندوں کی نوجودگی میں برطانیہ کے شہر برمنگھم جہاں تب تک ضلع میرپور خاص طور سے ڈڈیال سے گئے ہوئے (آزاد) کشمیریوں کی بڑی تعدا آباد ہو چکی تھی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ درحقیقت یہ محاذ رائے شماری اور محاذ آزادی اور برطانیہ میں انقلاب اور مزاحمت کی سیاست میں شریک کشمیریوں یو یک جا کرنے کا پلیٹ فارم تھا۔ یوں سیاسی طور پر اس کی حیثیت 1965 میں سچیت گڑھ کے مقام پر قائم ہونے والے محاذ رائے شماری جیسی تھی۔ رسمی طور پر یہ اس ہی محاذ رائے شماری کی شاخ تھی صرف نام برطانیہ اور دنیا کی ضرورتوں کے مطابق تبدیل کیا گیا تھا۔ نام کی بھی کہانی دلچسپ ہے۔ معلوم معلومات کے مطابق امان اللہ خان نے نام کی تبدیلی کی ضرورت کی تجویز دی۔ کیونکہ ‘ پلیبی سائیٹ فرنٹ’ مغربی سیاسی ماحول کے لیے پرکشش نام نہیں لگتا تھا۔ انہوں نے جموں کشمیر فریڈم فرنٹ تجویز کیا۔ لیکن عبدالجبار بٹ اور نذیر نازش جیسے برطانوی کشمیریوں نے جو یونین اور لیفٹ کی سیاست میں سرگرم تھے کہا کہ اگر نام تبدیل کرنا ہے تو پھر لبریشن فرنٹ رکھا جائے کیونکہ فریڈم فرنٹ زیادہ تر شخصی آزادیوں اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یوں جموں کشمیر لبرینشن فرنٹ قائم ہو گیا۔ اس وقت برطانیہ میں الحاق کی حامی کسی جماعت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ بہت جلد لبریشن فرنٹ میں ظفر خان، شبیر چوہدری اور عظمت خان جیسے برطانیہ میں تعلیم یافتہ اور دیگر مختلف شہروں سے مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے مزدور اور دوکاندار بھی شامل ہو گئے۔
1976 میں مقبول بٹ سری نگر جا کر گرفتار ہو گئے اور ان کی موت کی سزا بحال ہو گئی ۔ جے کے ایل ایف برطانیہ اور آزاد کشمیر میں وہ قومی آزادی کی جدوجہد علامت ضرور بنے لیکن ان کی راہ پر چند ہی چلے۔ نہ وادی کشمیر میں نہ آزاد کشمیر میں۔ ان کی راہ سے میری مراد ہے غلامی کے ساتھ ساتھ استحصال، قبیلہ پرستی، فرسودگی، غربت و افلاس ، بیماری ، ریاکاری اور اقربا پروری کے خلاف منظم جدوجہد اور آزادی کے لیے مسلح عوامی جدوجہد۔
آزاد کشمیر میں این ایل ایف کی ٹوٹ پھوٹ اور محاذ کے سکڑنے کے باوجود خود مختار کشمیر کا نعرہ اور سرگرمیاں این ایس ایف اور فریڈم موومنٹ وغیرہ کی طرف سے فروغ پذیر رہیں۔ اس دوران عبدالحمید دیوانی نے پنجاب یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں جا کر کشمیری طلباء کو آزادی کے درس دیے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں تھی کہ مقبول بٹ اور این ایل ایف کے کارکنان اور رہنماؤں کو گنگا ہائی جیکنگ اور مسلح سرگرمیوں کی پاداش میں جیلوں میں ڈالنے کے فوری بعد عبدالحمید دیوانی صاحب کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں مسلح سرگرمیوں کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے کی آجازت تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران ‘آزاد جموں کشمیر’ حکومت کو جوابدہ بنانے اور یہاں کے عوام کی روزمرہ زندگی کے مسائل اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اہم تحریک کا کم از کم مجھے علم نہیں ہے۔ نعرے موجود تھے لینٹ افسر واپس جاؤ، کشمیر کا تعلیمی نصاب ہو ، منگلا ڈیم کی رائلٹی دو وغیرہ وغیرہ لیکن عملی طور پر یہ نعرے صرف قوم پرستانہ اور انقلابی جذبات پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کے لیے کام آتے تھے۔ نظریاتی طور پر قومی آزادی، قوم پرستی و قوم پروری ، سوشلزم پر مختلف شکلوں میں بحث مباحثے بھی جاری رہے۔ برطانیہ میں عملی طور پر چند سالوں میں امان اللہ خان اور محاذ کے کارکنان اور دیگر آزادی پسندوں کے درمیان چپقلش فروغ پاتی رہی۔ آخر امان اللہ لبریشن فرنٹ کو برمنگھم سے لے کر لیوٹن منتقل ہو گئے۔ یوں سمجھیں میرپور سے کوٹلی منتقل ہو گئے۔
مصنف کے بارے میں
