منگلا ڈیم مخالف تحریک : آزاد کشمیر میں مزاحمتی سیاست کا اہم موڑ

شئر کریں

تحریر: شمس الرحمن

قیام کے فوری بعد ہی آزاد کشمیر کی سیاست میں یہ حقیقت اہل نظر کو نظر آنے لگی تھی کہ یہاں کہنے کو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن مقصد بے وقوف بنانا اور اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر کہیں اور لگانا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا یہاں کی اکلوتی سیاسی جماعت کے قائدین چوہدری غلام عباس ، سردار ابراہیم ، میر واعظ یوسف اور جلد ہی سردار قیوم اپنی اپنی حیثیت اور اہمیت قائم رکھنے کے جتنوں میں لگ گئے تھے۔ نیچے سیاست برادریوں کے گرد گھومنے لگی۔ میرپور میں راجے ، جاٹ ، بینس، گجر زمیندار برادریاں تھیں اور زمین پیداوار یعنی روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہونے کہ وجہ سے تاریخی طور پر سماجی رتبے اور طاقت کی سیڑھے پر قدرے اوپر تھیں۔ عمومی طور پر غیر زمیندار کا کسب دار / ہنرمند پیشوں سے تعلق رکھنے وال ی برادریوں یا چھوٹے زمینداروں میں تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد تعلیم حاصل کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا تھا۔ عمومی طور پر اس لیے کہ اس بارے میں کوئی اعداد و شمار میرے پاس نہیں ۔ ایک عمومی مشاہدہ اور اندازہ ہے۔ مطلب ایسا نہیں کہ تعلیم کا رحجان صرف ہنر مند برادریوں میں تھا ، کچھ زمیندار بلکہ بڑے زمینداروں کے نوجوان ( اور اکا دکا لڑکیاں) بھی پڑھ رہے یا پڑھ گئے تھے۔ اور کچھ ہنرمند برادریوں کے بھی تعلیم سے دور بھاگتے تھے یا خرچ ہی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ بہرحال نقطہ یہ ہے کہ جدید تعلیم سے لیس افراد میں یہ سوچ پیدا ہو رہی تھی کہ حکومتی دعوؤں ، پندونصاح اور وعدوں پر ہی نہیں رہنا چاہیے بلکہ متبادل راستے نکالنے چاہیں۔ لیکن اس کے باوجود سیاست میں برادری کا عنصر بہت بھاری تھا۔ برداریوں کے ساتھ ساتھ فرقوں کی شناختیں بھی بہت مضبوط تھیں۔ تاہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رحجان بھی کمزور نہیں تھا۔
ایسے میں جب یہ خبر آئی کہ منگلا کے مقام پر دریائے جہلم کو روک کر ڈیم بنایا جائے گا تو سیاسی سوج بوجھ رکھنے والوں کے سواء کسی نے یقین ہی نہ کیا۔ عام آدمی جو ڈیموں کے علم سے ناواقف تھے ان کی سوچ میں یہ بات سما ہی نہیں رہی تھی کہ جہلم اور پونچھ دریاؤں کو کسی بھی جگہ پر کوئی بھی روک سکتا ہے۔ تاہم جب مشینیں آنا شروع ہو گئیں اور سروے کرنے والے گھر گھر آنے جانے لگے تو یہ بات پھیلنے لگی کہ دریا بھی رکے گا، ڈیم بھی بنے گا اور میرپور شہر اپنے ارد گرد کے سینکڑوں گاؤں سمیت ڈوبے گا ۔ نظروں کے سامنے آشکار ہوتی ہوئی یہ حقیقت سب کے لیے ہی دل دہلا دینے والی تھی۔ پہلی بار سب برادریوں، فرقوں اور طبقوں کی اکثریت نے ‘ میرپوری’ بن کر سوچنا شروع کیا۔ ظاہر ہے سوائے ان کے جن کو معلوم تھا کہ ان کو کیا ملنے جا رہا تھا یعنی ان کو کیا کیا مفادات ملنے جا رہے تھے۔
1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے فوری بعد منگلا ڈیم پر کام شروع ہو گیا۔ معاہدے کے پس منظر اور تفصیلات ارشاد احمد کی ‘ آزادی کے بعد’ میں پڑھ لیں۔ یہ یہ بتانا مقصود ہے کہ لوگوں کو ہونے والے ممکنہ مشترک نقصان نے ایک دم سے ان کے درمیان بنی ہوئی قبائلی، فرقہ ورانہ اور جماعت و نظریاتی دیواریں کمزور کر دی تھیں۔ اکثریت میں یہ سوچ سرایت کر گئی کہ مل کر لڑنے سے ہی شاید کچھ بچ سکے۔ اس صورت حال نے مقامی سیاسی رہنماؤں کو بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ مزاحمتی اتحاد تو موجود ہی تھا ، مسلم کانفرنس کے مقامی رہنماؤں نے بھی سرکار کی بجائے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان میں کالگڑھ کے راجہ محمد نجیب جو مسلم کانفرنس کے سینئر رہنما تھے اور ان کے قصبے چک ہریام کے باسی پیش پیش تھے۔ میرپور میں ان کا ‘ ممتازہوٹل’ اینٹی منگلا تحریک کا گڑھ بن گیا۔ پچاس کے عشرے کے آخر تک منگلا ڈیم میرپور میں مزاحمتی سیاست کا مرکز ومحور بن چکا تھا۔ پاکستان میں اس وقت جنرل ایوب خان کی آمریت تھی ۔ یکم مئی 1959 کو انہوں نے آزاد کشمیر میں کے ایچ خورشید کو صدر بنا دیا۔ کے ایچ خورشید کو ‘آزاد کشمیر’ کی حکومت کو پاکستا ن اور پاکستان کے دوست ممالک سے تسلیم کروا کر باقی ماندہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے کام کرنے کے نظریے کا پیش کار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس موقع پر آزاد کشمیر کا صدر بن کر ان کا واسطہ براہ راست ‘ مزاحمتی سیاست’ اور مزاحمت کاروں سے پڑ گیا۔ ڈیم اور ڈیم مخالف تحریک کی تفصیلات آپ عبدالخالق انصاری کی آپ بیتی متاع غرور اور دانش ارشاد کی کتاب’ آزادی کے بعد’ میں پڑھ سکتے ہیں ۔ یہاں اس کا تعلق اتنا ہی بنتا تھا کہ میرپور میں عوامی حقوق اور مزاحمتی سیاست کو منگلا ڈیم کے خلاف تحریک سے طاقت و قوت اور اعتماد ملا۔
اس وقت تک جو عوامی ، مزاحمتی اور متبادل سیاست ہو رہی تھی اس میں خود مختار کشمیر کے نعرے کے علاوہ سرعام اور کوئی نظریاتی بحث مباحثہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ سیاست سنتالیس سے پہلے کی مزاحمتی روایات اور افکار سے جڑی ہوئی تھی اور اس کی مرکزی صفت یہ تھی کہ یہ مقامی مسائل اور حالات سے ابھری اور پروان چڑھی تھی۔ تاہم 1967 میں منگلا ڈیم کی تکمیل تک چار ایسی اہم تنظیمیں قائم ہوئیں جنہوں نے نہ صرف میرپور بلکہ آزاد کشمیر میں عوامی ، مزاحمتی اور نظریاتی سیاست کا رخ ہی بدل دیا۔
1962 میں آزاد کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے آزاد جموں کشمیر لبرشن لیگ قائم کر دی جس کا مقصد اقتدار کے ایوانوں میں مسلم کانفرنس کے مقابلے میں آزاد حکومت کو باقاعدہ تسلیم کروا کر کشمیر کی آزادی کے لیے سفارتی سطح پر کام کرنا تھا۔
اپریل 1965 میں، بھارت اور پاکستان کی جنگ سے پانچ ماہ قبل وہ تمام رہنما جنہوں نے ایک جماعت بننے تک ‘متحدہ محاز’ بنایا تھا نے ‘ جماعت’ بھی بنا لی۔ جموں کشمیر کے یہ تمام رہنما اور ان کی جماعتیں بشمول امان اللہ خان کی ‘ خود مختار کشمیر کمیٹی ‘ اور عبدلخالق انصاری کی جموں کشمیر عوامی کانفرنس سب محاذ رائے شماری میں شامل ہو گئیں۔یہ سطور لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سب جموں کشمیر عوامی کانفرنس میں کیوں شامل نہیں ہوئے؟ انصاری صاحب کی کتاب میں اس کا جواب مجھے فلحال کہیں نظر نہیں آیا۔ اگر تو انصاری صاحب یا ان کے کوئی ساتھی موجود ہوتے تو ان سے پوچھتا ۔ تاہم اس کا جواب ڈھونڈنے کا ایک طریقہ محا ذ کی ترجیحات اور سرگرمیوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی ایک ایسی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی جس کے مقاصد میں اگرچہ تقسیم کی لکیر مٹا کر ایک متحدہ اور خودمختار جموں کشمیر قائم کرنا شامل تھا لیکن اس کی باقی ماندہ مقاصد میں آزاد کشمیر میں بااختیار اور باوقار حکومت اور آئین ساز اسمبلی کا قیام شامل تھے۔ جب کہ محاذ رائے شماری کی جدوجہد کا مرکز ہو محور بھارتی مقبوضہ علاقے پر توجہ مرکوز رکھ کر رائے شماری کی مانگ کرنا تھا۔ یاد رہے اس وقت شیخ عبداللہ رہا ہو چکے تھے ۔ چوہدری نور حسین نے برطانیہ جا کر شیخ صاحب کی رہائی کے لیے ایک انگریز وکیل بھی کیا تھا جس کو بھارت نے داخلے کی آجازت نہیں دی تھی۔ شیخ صاحب رہائی کے بعد برطانیہ گئے اور وہاں خود مختاری و رائے شماری کے حامی ‘آزاد’ کشمیریوں سے ملے اور بریڈ فورڈ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ یوں عملی طور پر محا ذ رائے شماری کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمت کی سیاست کا رخ عوامی حقوق اور مظفر آباد میں آئین ساز اسمبلی اور بااختیار حکومت قائم کرنے کی جدوجہد سے ہٹ کر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلانے کی طرف مڑ گیا۔ جلد ہی محاذ کے اندر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح ونگ قائم کرنے پر بحث چل پڑی۔ امان اللہ خان اور مقبول بٹ کا خیال تھا کہ مسلح جدوجہد جس کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر محکوم اقوام کو دیتا ہے کشمیر کی آزادی کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا ۔ کئی ایک نوجوانوں کے لیے یہ بڑی پرکشش بات تھی تاہم جب ووٹنگ ہوئی تو محاز رائے شماری کی اکثریت نے اس کو مسترد کر دیا۔ عبدالخالق انصاری صاحب پر امن سیاست کے ذریعے رائے شماری کے لیے جدوجہد کرنے کے حامی تھی ۔ شاید اسی لیے اکثریت نے ان کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ اس وقت میرپور میں بھی اور آزاد کشمیر میں بھی، آزادی پسندوں کی صفوں میں انصاری صاحب کو خاصی حمایت حاصل تھی۔
بقول امان اللہ خان انہوں نے اور مقبول بٹ نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے پشاور میں میجر امان اللہ کے گھر 13 اگست 1965 کوالجزائر میں فرانسیسی راج کے خلاف این ایل ایف کی طرز پر ‘جموں کشمیر محاذ آزادی’ کی بنیاد رکھ دی۔ 13 اگست کی تاریخ چننے کا مقصد 1948 میں اس تاریخ کو اقوام متحدہ کے کمشن برائے انڈیا و پاکستان کی طرف سے پیش کی جانے والی پہلی قرار داد تھی جس میں ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کو رائے شماری کے ذریعے ‘ اپنے مستقبل کا فیصلہ’ کرنے حق دیا گیا تھا۔ اس قرار داد کے الفاظ کے مطابق کشمیریوں کا حق خود ارادیت صرف پاکستان یا بھارت سے الحاق تک محدود نہیں تھا۔ اب محاذ رائے شماری کے ساتھ ساتھ خفیہ طور پر مسلح جدوجہد کے لیے محاذ آزادی بھی وجود میں آچکا تھا۔ درحقیقت یہاں سے آگے جموں کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک مقبول بٹ کی سرگرمیوں کے گرد ہی پروان چڑھی۔
چوتھا واقعہ 1966 ہی میں میرپور میں نیشنل سٹوڈنٹس یونین کا قیام تھا جو بعد میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے آزاد کشمیر بھر میں طلبا کی سب سے مقبول تنظیم بن گئی۔ یہ تنظیم پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور کچھ زیر تعلیم ایسے طلباء کے اثر میں قائم ہوئی تھی جو پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھے ۔ افسوس کہ این ایس ایف ( آزاد کشمیر) کی تاریخ پر کوئی تحریری مواد دستیاب نہیں ہے۔ تاہم یہاں ہمارا مقصد آزاد کشمیر میں جدید نظریاتی سیاست کے ارتقاء کو واضح کرنا ہے۔ محاذ آزادی کے قیام کے بعد قوم پرستی، قومی آزادی ، سیکولرازم وغیرہ جیسے تصوارت پر بحثیں ہونے لگیں اور این ایس ایف قائم کیے جانے کے بعد مارکس، لینن، ماؤ، سوشلزم اور کیمونزم پر۔ مزاحمتی سیاست میں عوامی حقوق ، لینٹ افسروں کی واپسی، آئین ساز اسمبلی کے قیام وغیرہ بس کبھی کبھار بیان کی حد تک یا کسی تقریر میں آزاد کشمیر کی حکومت کو کٹھ پتلی ثابت کرنے کی حد تک ہی رہ گئے تھے۔ ایک دھارا سوشلسٹ انقلاب کی طرف بہہ نکلا اور دوسرا مسلح جدوجہد کے ذریعے قومی آزادی کی راہوں پر۔ دونوں دھاروں کے ساتھ کیا ہوا؟ انقلابی اور خود مختاری کی سیاست کس طرح عام اور روزمرہ زندگی کے حقیقی سیاسی و سماجی حقوق و مسائل اور عام عوام سے کٹ کر کیسے نظریاتی بحثوں کے ایک پر پیچ اور نہ ختم ہونے والے راستے پر چل نکلی ؟ اس پر اگلی قسط میں ۔۔۔

مصنف کے بارے میں

Shams Rehman
Shams Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *