کشمیر میں متبادل، نظریاتی اور مزاحمتی سیاست کا آغاز

شئر کریں

تحریر: شمس الرحمن

یکم جنوری 1948 کو ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا معاملہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ میں لے جانے اور وہاں دونوں حکومتوں کی طرف سے جنگ بندی قبول کرنے کے بعد زمین پر بھی تقسیم کے رولے دھیمے پڑ گئے اور ” آزاد کشمیر ” کے خطے کے لیے قائم کی گئی حکومت کو مقامی اتھارٹی کے طور پر تسلیمیت مل گئی۔ شاید اس ہی لیے پاکستان کے حکمرانوں نے اس سے خارجی معاملات بشمول مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان لے لیے اور اس کو اندرونی امور تک محدود کر دیا۔ تاہم جیسا کہ اوپر اشارہ کیا اندرونی معاملات میں بھی اس حکومت کو ‘ وزارت امور کشمیر’ کا محتاج بنا دیا گیا تھا۔ عوامی حقوق و مسائل اور دستیاب وسائل کو استعمال میں لا کر اس خطے کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بجائے حکمرانوں کی حکمرانی اپنا اقتدار بچانے ، ما ل و متاع اکٹھی کرنے اور انتظامیہ کی ہر سطح پر اور ہر ادارے میں اپنے وفادار ملازمین بھرتی کر کے کسی قسم کی متبادل یا مخالف سوچ کو کو کچلنے تک محدود ہو گئی۔ نظریاتی طور پر تقریریں اور باتیں تو کشمیر کی آزادی اور نفاذ اسلام کی کی جاتی تھیں تاہم عملی طور پر سیاست اسلام نہیں بلکہ فرقوں اور برادریوں کے گرد گھومنے لگ گئی تھی۔ جو کچھ سیاسی اور سماجی حقوق مہاراجہ عہد میں عوام جدوجہد کے ذریعے جیتے گئے تھے وہ بھی چھن گئے۔ میرپور میں بڑی برادریوں مطلب راجے اور چوہدری ( جاٹ اور بینس) جن کی اکثریت متحدہ جموں کشمیر میں پہلے مہاراجہ کے افسروں اور زیلداروں جاگیرداروں سے جڑے ہوئے تھے پھر جدید عوامی سیاست کے بعد ان میں سے کئی اس میں شامل ہوئے تقسیم کے بعد مسلم کانفرنس کے ساتھ مل کر اپنے اپنے مفادات کے لیے ‘جدوجہد’ میں مصروف ہو گئے تھے۔ تاہم چو نکہ اکثر چھوٹے کسان یا دستکار برادریاں اور شہر کے سیاسی طور پر باشعور افراد نے تقسیم سے پہلے میرپور میں عوامی حقوق اور ترقی پسندانہ قومی سیاست نیشنل کانفرنس کی چھتری تلے کی تھی اس لیے مسلم کانفرنس نے ظاہر ہے ان کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ سیاسی اور جسمانی ہراسانی اور حملوں کا نشانہ بھی بنایا ۔ اس کے ساتھ ساتھ جب مسلم کانفرنس کے ‘حقیقی نظریات’ ( عوامی حقوق ، عدل و انصاف اور فلاح و بہبود، بدعنوانیوں سے پاک معاشرہ) سے بھی روگردانی شروع کر دی تو اس کے اندر موجود نظریاتی کارکنان بھی بیزار ہونے لگے۔ ایسے ہی تین سیاسی نظریاتی رہنما متبادل کی تلاش میں عبدالخالق انصاری کے پاس آئے جو خود بھی تقسیم سے پہلے پرنس آف ویلز کالج جموں میں اور میرپور شہر میں طلبا سیاست اور حقوق و حکومت کی وسیع تر سیاست میں سرگرم رہے تھے۔ انصاری صاحب کے پاس آنے والے تین رہنما کامریڈ مقبول احمد خاور ، عبدالعزیز اور ماسٹر عبدالرحمان تھے۔ مقبول خاور مسلم کانفرنس کے دبنگ رہنما اور میرپور ضلع کے عہدیدار تھے جب کی عبدالعزیز المعروف گودری راجہ اکبر و مولوی عبداللہ سیاکھوی کے ساتھی اور مہاراجہ راج اور سامراج کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں جیلیں کاٹ چکے تھے۔ ماسٹر عبدالرحمان بھی پرانے سیاسی کارکن اور راجہ اکبر و مولوی وہاب الدین کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ ان تینوں رہنماؤں نے جب مسلم کانفرنس جماعت اور حکومت کی ترجیحات اور عملی صورت حال پر تنقید کرتے ہوئے ایک نئی جماعت بنانے کی تجویز دی تو انصاری صاحب نے اتفاق کیا ۔ مزید لوگوں سے صلاح مشورہ کیا تو پتہ چلا کہ بہت سے لوگ یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے تھے۔ پرانے رہنماؤں مولی وہاب الدین ( جن کو ان کی آزادی پسندی کے نظریات و سیاست کی وجہ سے کلہاری کا وار کر کے زخمی بھی کیا گیا تھا) کامرید محمد حسین ( جن کو پاکستان و بھارت کے قیام کے بعد کچھ تنگ نظر مسلم کانفرنسیوں نے تھانے میں بند کروا دیا تھا لیکن بھارتی جہازوں کی پروازوں کی وجہ سے جب بھگدر مچی تو لوگوں نے محمد حسین کو ‘آزاد’ کروا لیا) نے رہنمائی کی اور مولوی عبداللہ سیاکھوی نے مفید مشورے دیے ۔ نام کے حوالے سے پہلے اس کا نام ‘ جناح عوالی’ لیگ بھی تجویز ہوا لیکن پھر ‘ عوامی مسلم کانفرنس ‘ پر اتفاق کیا گیا ۔ ایک سال بعد صرف عوامی کانفرنس کر دیا گیا یعنی جموں کشمیر عوامی کانفرنس۔ اس کے بانی صدر عبدالخالق انصاری بنے جبکہ اس میں مسلم کانفرنس کے کئی سرگرم کارکنان شامل ہو گئے اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ جماعت کے منشور کی بنیادیں بقول عبدالخالق انصاری یہ تھیں :
1۔ کشمیر کی مصنوعی لکیر کا خاتمہ
2۔ ریاست کی وحدت اور خود مختاری
3۔ آزاد کشمیر حکومت کو وازارت امور کشمیر کے شکنجے سے چھڑا کر ایک حقیقی انقلابی اور آزاد حکومت تسلیم کروانا
4- عوام کے رائے دہی کا حق جو مہاراجہ راج میں جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا وہ حق ‘آزاد کشمیری’ عوام کو واپس دلانا
5- آئین ساز اسمبلی کا قیام
6- مہاجرین جموں کشمیر کے حقوق اور آبادکاری کروانا
عوامی کانفرنس کے قائدین کے خیال میں خود مختار کشمیر سوئیٹزلینڈ کی طرح ایک غیر جانبدار ریاست بن سکتی ہے اور یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی ختم کر کے دوستی کا پل بن سکتی ہے۔
غور کریں تو یہ جماعت مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے مشترکہ اثرات سے پیدا ہوئی تھی ۔ یہ جماعت تقسیم سے پہلے ان دونوں بڑی جماعتوں کے اصل نظریات کی وارث بن کر سامنے آئی تھی۔ وہ نظریات جو بھارت اور پاکستان کی طرف سے مداخلت اور غلبے سے پہلے ریاست کی سیاست میں پروان چڑھ رہے تھے۔
اس تحریک کے متوازی متبادل سیاست کا ایک اور رنگ بھی سامنے آ رہا تھا جس کی قیادت چوہدری نور حسین کی شکل میں ابھر کر سامنے آ رہی تھی۔ تاہم اس میں توجہ کا مرکز جمہوری حقوق اور جاگیرداری کا خاتمہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ چوہدری نورحسین نے میرپور میں فیکٹریاں بھی لگائیں اور صنعت سازی کے معاملات بھی اٹھائے ۔ سیاست کے اس رنگ میں خود مختاری کو نمایاں حیثیت حاصل نہیں تھی لیکن جمہوری اور ترقی پسند نظریات کا اثر واضح طور پر موجود تھا۔

نوٹ:مضمون میں زیادہ تر معلومات عبدالخالق انصاری صاحب کی آپ بیتی” متاع غرور” سے لی گئی ہیں

مصنف کے بارے میں

Shams Rehman
Shams Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *