راجہ محمد اکبر خان، ریاست جموں کشمیر کا پہلا عوامی مزاحمت کار
تحریر : شمس الرحمن ، برطانیہ
پہلا عوامی مزاحمت کار اس لیے کہ سردار بدھ سنگھ کی مزاحمت اگرچہ عوام یعنی مزدوروں کسانوں کے حقوق اور فلاح کے لیے تھی لیکن اونچی انتظامی اور حکومتی اور پھر سیاسی جماعتی سطحوں پر تھی ۔ جب کہ راجہ محمد اکبر زمین پر عام عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو بھی شعور دیتے اور سرکار کو بھی لعن طعن کرتے تھے۔ ان کی زندگی پر ایک نظر سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ ( راجہ کابر کے بارے میں یہ معلومات ڈاکٹر اظہر حسین کی کتاب ‘ سوانح بطل حریت ، راجہ محمد اکبر خان ؛ سے لی گئی ہیں۔ اللہ ڈاکٹر اظہر صاحب کی یہ انتہائی اہم ورثہ اگلی نسلوں کے لیے چھوڑ جانے پر مغفرت کرے۔
راجہ اکبر 1895 میں دریائے جہلم اور پونچھ کے سنگم سے کوئی ایک آدھ میل کی مسافت پر واقع گاؤں عبداللہ پور چمہال میں پیدا ہوئے ۔ والد راجہ نیک محمد خان ایک درمیانے طبقے کے زمیندار تھے ۔ خاندان کی معاش کا بڑا ذریعہ کھیتی باڑی تھا۔ 07 سال کی عمر کو پہنچے تو ریاست جموں کشمیر میں ایک بڑا قحط پڑا جس کے نتیجے میں راجہ اکبر خان اپنے والدین کے ساتھ میرپور سے سرگودھا میں ایک قصبے للیانی چلے گئے۔ وہاں حافظ فضل کریم سے قران مجید اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ چند سال بعد واپس میرپور آگئے جہاں چڑھتی جوانی میں مقبول مقامی کھیلوں کبڈی اور گھوڑ سواری شوق سے کرنے لگے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی ہند کی فوج نہ صرف ملازمت بلکہ کھیلوں کے شوقینوں کے لیے بھی ایک اہم ادارہ تھا۔ راجہ اکبر سولہ سال کی عمر میں ایسے توانا بدن نوجوان بن چکے تھے کہ ریکروٹنگ یعنی بھرتی کرنے والے افسر نے اس عمر میں ہی انہیں 23 رسالے میں بھرتی کر لیا۔ فوج میں کبڈی اور شاہ سواری کی وجہ سے جلد ہی ان کا نام ہر طرف بولنے لگا۔ فوج میں یوں ہی کھیل کھیل میں ملازمت کے سال مہینے گذر رہے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کا بگل بج گیا۔ برطانوی ہند اور ریاست جموں کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کی طرح راجہ اکبر بھی انگریز اتحادی فوجوں کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے محاذ پر لڑنے پہنچ گئے۔ حالات ایسے تھے کہ اس محاذ پر سامنے دشمن سلطنت عثمانیہ کے فوجی تھے ۔ ایران ، مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ اور ترکی میں لڑائی اور گھومنے پھرنے کے دوران ان کے دل میں سامراج کے خلاف بغاوت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اس دوران انہیں مختلف ممالک میں آزادی کی جدوجہدوں کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا تو انہوں نے دل ہی دل میں فوج چھوڑ کر سامراج اور مہاراجہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے کی ٹھان لی۔
کہا جاتا ہے کہ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ان کی یونٹ راولپنڈی چھاونی میں تھے ۔ صبح پریڈ کا معائنہ کرنے والے انگریز میجر نے دیکھا کہ راجہ اکبر کی قمیض کے بٹن اور بوٹوں کے تسمے کھلے ہوئے تھے۔
میجر نے کہا ” بٹن بند کرو اور تسمے باندھو”۔
” اس دنیا کی فرنگی کے ہاتھوں جو تذلیل ہو رہی ہے ، میرے تسمے باندھنے یا بٹن بند کرنے سے اس میں کیا فرق پڑے گا۔ اگر تمھیں زیادہ پریشانی ہے تو یہ کام خود کر لو۔
میجر نے تحمل سے کام لیا اور اس سرا سر سیاسی باغیانہ حرکت کو بڑا مسئلہ بنانے کی بجائے خاموشی سے راجہ محمد اکبر کا نام فوجیوں کی فہرست سے کاٹ دیا۔
فوج سے آزادی کے بعد وہ کیمبل پور چلے گئے ( معلوم نہیں وہاں کس تعلق سے اور کیوں گئے)۔ وہاں صدر بازار میں ایک دوکان کرائے پر لے کر بظاہر فوجی سازوسامان فروخت کرنے لگے لیکن اصل میں جو کوئی فوج میں بھرتی ہونے کا امیدوار ہوتا اس کو فوج میں نہ جانے اور جو فوج میں تھے ان کو فوج چھوڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔ اس دوران ان کے اپنے عزیز راجہ بوستان خان فوج میں بھرتی ہونے کے لیے روالپنڈی چھاونی میں راجہ محمد خان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ راجہ اکبر بھی جب دوکان کے لیے مال متال لینے آتے تو راجہ محمد خان کے پاس ہی قیام کرتے۔ یہاں سے وہ راجہ بوستان کو فوج میں بھرتی نہ ہونے کے لیے قائل کر کے اپنے ساتھ کیمبل پور لے گئے۔ وہاں راجہ بوستان نے اچھی طرح سے دوکان سنبھال لی اور راجہ اکبر اپنے سیاسی کام میں لگے رہے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے والد انہیں واپس میرپور لے آئے اور یہاں محکمہ جنگلات میں بھرتی ہو گئے۔ کچھ عرصہ وہاں کام کے بعد بیزار ہو کر ایک کواپریٹیو بینک میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہاں انہوں نے مہاجنی نظام اور عام غریب کسانوں کے حالات اور استحصال کو قریب سے دیکھا تو بغاوت کا جذبہ مزید بھڑک اٹھا۔ یہاں سے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ استعفیٰ کیا تھا مہاراجہ نظام کے خلاف چارج شیٹ تھی۔ جس کو مینجر مقبول ملک نے بس کسی طرح سے نپٹا لیا۔
بینک کی نوکری چھوڑ کر راجہ اکبر مکمل طور پر سماجی، سیاسی اور معاشی جبرو استحصال اور لوک بھلائی کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ خود انہیں معاشی طور پر اپنے والد اور بھائیوں کا اور روحانی اور جذباتی طور پر والدہ کا تعاون حاصل رہا۔ سماجی میدان میں انہوں نے اپنی راجہ برادری اور مسلم معاشرے کے اندر انہوں نے شادی بیاہ کی رسموں، ذات پات کی تفریق کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ سیاسی طور پر انہوں نے انتظامیہ کی بدعنوانیوں، ساہوکارہ نظام اور مجموعی طور پر مہاراجہ نظام اور برطانوی سامراجی نطام کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد میں سرگرم اور مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کے لیے جو اس راہ میں سب پر گزرتی ہے ان پر بھی گزری جس کا انہوں نے جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔
سوانح بطل حریت ‘ راجہ محمد اکبر خان’ جو کہ ڈاکٹر غلام حسین اظہر نے لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ اکبر جب سیاسی میدان میں اترے تو اس کے بعد وہ مکمل طور پر وہ چوبیس گھنٹے چلتے پھرتے سیاسی کارکن بھی تھے اور رہنما بھی ۔ ان کی ذات سے بے شمار واقعات وابستہ ہیں جو مذکورہ کتاب میں درج ہیں۔
1932 کی مالیہ تحریک تک میرپور میں مہاراجہ راج کے خلاف عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ایک خاصا حلقہ پیدا ہو چکا تھا جن میں سردار بدھ سنگھ، مولانا عبداللہ سیاکھوی، حاجی وہاب الدین نمایاں تھے۔
بعد ازاں راجہ اکبر نے سچ اور ہمت اخبار نکالے جن میں عوامی مسائل اور حکومتی کمزوریوں کو خوب اجاگر کیا جاتا تھا ۔
سردار بدھ سنگھ کی طرح راجہ اکبر بھی سیاست میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیتے تھے یعنی ریاست کو مذہب کی عینک سے نہیں دیکھتے تھے۔ مطلب ان کا نظریہ یہ نہیں تھا کہ حقوق صرف مسلمان کسانوں، مسلمان مزدورو یا مسلمان رعایا کو ہی ملنے چاہیں بلکہ سب کسانوں ، سب مزدوروں اور پوری رعایا کو ملنے چاہیں۔ تاہم جہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہوتا وہاں وہ کھل کر مسلمانوں کے غصب شدہ حقوق کی بات کرنے سے بھی نہیں کتراتے تھے ۔ اس بارے میں اللہ رکھا ساغر کے حوالے سے ڈاکٹر اظہر لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ غیر متعصب مسلمان صرف راجہ اکبر ہی ہے اور غیر متعصب سکھ بدھ سنگھ ، لیکن ان دو مثالوں سے تاریخ کا دھارا کیسے بدل سکتا ہے۔ تاریخ کے دھارے والی انتہائی اہم بات کی ساغر صاحب نے ۔ کیونکہ یورپ میں بھی یہ تاریخ کا یہ دھارا تھا جس کو بدلنے کے لیے جدید نظریات پیدا ہوئے تھے۔
خیر راجہ محمد اکبر پوری توجہ اور قوت سے مہاراجہ راج کے خلاف عوامی بیداری کی جدوجہد میں مشغول رہے۔ عوامی مزاحمت جو 1922 میں سری نگر کے حضوری باغ میں سردار بدھ سنگھ کی طرف سے بیگاری اور دیہاڑی دار مزدوروں کے جلسوں سے شروع ہوئی تھی 1931 تک عظیم عوامی تحریک بن کر سری نگر و جموں میں پھیل چکی تھی۔ راجہ اکبر کی کوششوں سے میرپور بھی اس کا گڑھ بن گیا۔ 1931 کی تحریک میں بھی میرپور اور گردونواح کے علاقوں میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ یہاں اتنی گرفتاریاں ہوئیں کہ لاہور سے کشمیر کمیٹی کو گرفتار شدگان کے مقدمات کی پیروری کے لیے وکلاء بھیجنے پڑے۔ علامہ اقبال نے اسیران کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
1932 میں مالیہ بند تحریک اس ہی ضلع سے اٹھی جس کے پیچھے راجہ محمد اکبر خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے سرکاری جبرواستحصال اور نا انصافیوں کے خلاف پھیلا یا گیا شعور اور جرات تھی ۔ مالیہ بند پہلی سول نافرمانی کی تحریک تھی جو میرپور اور راجوری کے علاقوں میں برپا ہوئی۔1931 اور 1932 کی ان دو تحریکوں نے مہاراجہ راج کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے مہاراجہ سرکار نے برطانوی ہند سرکار سے مدد کی تحریری درخواست کی ۔ انگریز سرکار نے اپنے کارندوں کے ذریعے صورت حال سے آگاہی حاصل کر کے میجر سالزبری کی قیادت میں اپنے دستے بھیجے اور جبر و تشدد ( دو پھانسیوں اور کئ قیدیوں ) کے باوجود لوگوں نے مالیہ بند رکھا تو سالزبری نے مقامی لوگوں سے معلومات لے کر یہ نتیجہ نکالا کہ اس تحریک کے قائدین اور عوام علاقہ نے مسجد میں بیٹھ کر قران اٹھایا ہوا ہے کہ نئے نرخوں پر مالیہ نہیں دینا ہے۔ اس لیے اس تحریک کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ مالیے میں اضافہ واپس لیا جائے۔ جو کہ لیا گیا۔ سری نگر کی طرح اس تحریک میں بھی فرقہ واریت کے مظاہرے ہوئے جو کہ ‘مقامی تاریخ کے متوازی دھاروں’ ( مذہبی عینکوں) کی وجہ سے شاید ہونے ہی تھے ، لیکن مجموعی طور پر اس تحریک نے اس خطے میں حقوق کے تصور اور اتحاد اور نئی دنیا کے تقاضوں کے حوالے سے خاصی آگہی پیدا کی۔ خاص طور سے تعلیم اور بطور خاص مسلمان زمینداروں اور کسانوں اور دستکاروں میں بچوں کو پڑھانے کی اہمیت و افادیت کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوا۔
میرپور میں اس عوامی تحریک کی وجہ سے ہی شاید مسلم کانفرنس نے اپنا دوسرا سالانہ جلسہ میرپور میں رکھا ۔ اس میں خطبہ استقبالیہ راجہ محمد اکبر نے پیش کیا۔ یہاں سے آگے وہ زمہ دارانہ نظام حکومت کی جدوجہد میں پیش پیش رہے ۔
1937 میں مسلم کانفرنس کا ضلعی کنونش ڈڈیال میں ہوا جس میں مقامی رہنماؤں کے علاوہ شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس بھی موجود تھے۔ یہاں راجہ اکبر نے تبدہب، گلانسی کمیشن ، مسلمانوں پر اسلحہ رکھنے کی ممانعت اور قرضوں اور معائدات کے خاتمے کی قرار دادیں پیش کیں۔
راجہ اکبر واضح طور پر حضور اکرمﷺ کی انقلابی جدوجہد سے متاثر تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انگریز سامراج اور مہاراجہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے کا جو بنیادی شعور آیا تھا اس میں جہاں اس وقت دنیا میں سامراج مخالف آوازوں کا اثر تھا وہاں وہ اسلام میں مساوات، جبر و استبداد اور ،مطلق العنانی یعنی آمریت کو للکارنے کی روایات سے بھی رہنمائی لیتے تھے۔
1994 بکرمی یعنی 1938 عیسوی میں مسلم کانفرنس کے پونچھ میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں راجہ اکبر خان کی تقریر ان کے سیاسی فلسفے کا نچوڑ پیش کرتی ہے۔ یہاں یہ معلومات اور یہ اقتباس ڈاکٹر غلام حسین اظہر کی کتاب سے لیا گیا ہے۔
” مسلمانوں کی تاریخ حریت و آزادی کا پیکر ہے۔ مسلمانوں نے خلفائے رسول جن کی اطاعت تیسرے درجہ پر مشروط طور پر فرض ہے ۔ فاروق اعظم ( رضی اللہ ) جیسے خلیفہ پر دوسری چادر دیکھ کر خطبہ جمعہ کے سننے اور اطاعت کرنے سے اس وقت تک انکار کر دیا جب تک کہ فاروق اعظم نے اپنے متدین ( پرہز گار ، نیک، پارسا) بیٹے عبداللہ کو نہ پیش کیا۔ ۔۔۔ یہاں آج ہم بازوں کو کمزور چڑیوں کو نوچتے اور ان کا خون پیتے ہوئے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے ۔ ہم مساوات اور امن کے حامی اور مطلق العنانی اور جبرواستبداد کے دشمن ہیں۔ ہم یہاں کا نظام حکومت چند طاقت ور اور سرمایہ دار اشخاص کے ہاتھوں میں دیکھنے کی بجائے یہاں کے تمام سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ملک کے غریب اور مفلس طبقے کو غربت اور افلاس سے نجات دلانے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
1943 میں وہ نیشنل کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی سے مستعفی ہو گئے۔ اس کی خبر ان کے اخبار سچ میں یوں چھپی :
“ورکنگ کمیٹی کے مستعفی شدہ ( اصل کے مطابق ) ممبروں کا بیان “
تفصیلات یوں درج ہیں:
” ہمارے استعفوں کی وجہ ورکنگ کمیٹی کے دو ریزولیوشن ہیں ۔ جو ہماری عدم موجودگی میں وسط مئی میں ورکنگ کمیٹی نے پاس کیے۔
پہلا ریزولیوشن اسمبلی سے مستعفی شدہ ممبروں کی نامزدگی منظور کرنے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا موجودہ جنگ کو عوام کی جنگ قرار دینا۔ چونکہ حکومت کے جابرانہ مستعبد رویہ نے ہمیں اس قدر بیزار کر دیا ہے کہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل یا کسی آبرومندانہ سمجھوتہ کے بغیر حکومت سے تعاون ، قوم کی قوت مزاحمت کو کمزور کرنے کے مترادف خیال کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو خاموشی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے فیصلہ پر دستخط کر دیں یا ورکنگ کمیٹی سے مستعفی ہو کر حزب اختلاف میں رہ کر اپنے جذبات کا اظہار کریں ۔ چنانچہ نیشنل کانفرنس کی عزت و وقار نے آخری راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اس لیے ہم نے جنرل کونسل کے اجلاس میں دونوں قرار دادوں کی کھلم کھلا مخلافت کی لیکن جنرل کونسل کی اکثریت ہر دو قرار دادوں کو اصل صورت میں منظور کر لیا۔ “
راجہ اکبر ستمبر 1946 میں یہ دنیا چھوڑ گئے ۔ اپنے ورثے میں حق و سچ ، انصاف اور مساوی سلوک اور سماجی انصاف کے لیے ذمہ دارانہ اور منصفانہ نظام حکومت کے لیے بے خوف اور عوام دوست نظریہ اور جدوجہد چھوڑی جو ہر عہد میں جہاں جہاں اور جب جب جابرانہ اور استبدادی حکومت ہو گی وہاں وہاں اور تب تب نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
مصنف کے بارے میں
