کاش میں اس دن جلسہ سے باہر نا آتا

شئر کریں

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر امیر الدین مغل کی یاداشت


انسان کی زندگی میں بیشمار ایسے لمحات آتے ہیں جو اس کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں اور کئی ایسے بھی واقعات بھی پیش آتے ہیں جو انسان کو کبھی نہیں بھولتے بندے کو جب وہ لمحات یاد آتے ہیں بے ساختہ بندہ کہہ اٹھتا ہے کہ کاش اس وقت میں نے یہ کام کرلیا ہوتا یا کاش میں نے یہ کام نا کیا ہوتا.بحیثیت صحافی یا Photojournalist مجھے اپنی صحافتی زندگی میں ہمیشہ ایسے دو واقعات ہمیشہ یاد رہیں گے جب بھی ان کی یاد آتی ہے تو میں یہی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ کاش اس وقت میں نے یہ کام کرلیا ہوتا. ان دو واقعات میں سے ایک واقعہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت ہے اور دوسرے واقعہ کے بارے مناسب موقع پر لکھوں گا.
جب بینظیر بھٹو جنرل مشرف کے دور میں پاکستان واپس آئیں اس وقت میں کراچی میں تھا جب شاہراہ فیصل پر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا کئی کارکن شہید ہوئے میں عین جائے وقوعہ کار ساز کے قریب موجود تھا لیکن اس کی کوریج اس لئے نا کر سکا سیکورٹی کی وجہ سے جائے وقوعہ پر نا جانا ممکن نا تھا تاہم اس کا مجھے اتنا ملال نہیں کیوں کہ کئی محترمہ بینظیر بھٹو اس واقعہ میں محفوظ رہی تھیں.
البتہ جس دن محترمہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں شہید ہوئیں وہ دن وہ لمحہ مجھے ہر وقت یاد رہے گا، کوستا ہی رہے گا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ان دنوں میری ڈیوٹی میرے ادارے Reuters نے پاکستان میں متوقع الیکشن کوریج کیلئے لگی تھی مجھے مختلف شہروں میں الیکشن کوریج کرنا تھی اس سلسلہ میں سب سے پہلا جلسہ کور کرنے میں راولپنڈی پہنچا تو لیاقت باغ میں جس جلسہ سے محترمہ نے خطاب کرنا تھا اس جلسہ کی کوریج کیلئے میں میڈیا کیلئے مختص جگہ پر پہنچا جو کہ سٹیج کے عین سامنے تھی وہاں پہنچنے کیلئے پہلے سکیورٹی چیک کے مراحل گزرا کراچی حملے کی وجہ سے سیکیورٹی انتہائی سخت تھی تلاشی ہوئی بیگ اور کیمروں کی چیکنگ اور دونوں کیمروں پر سیکیورٹی کے خصوصی سٹیکر لگے جب میں خاردار تاروں کے درمیان بنائی گئی جگہ پر پہنچا تو میرے کولیگ اسلام آباد میں رائیٹر سے وابستہ پیارے دوست بھائی فیصل محمود(مرحوم) جو چند سال قبل انتقال کر گئے وہ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے بتایا کہ اس وقت کے ہمارے ادارے رائٹر reuters کے چیف فوٹو گرافر میاں خورشید صاحب بھی آرہے ہیں کوریج کیلئے میں نے سوچا کہ جب چیف فوٹوگرافر اور اسسٹنٹ دونوں موجود ہیں کوریج کیلئے تو میں کچھ اور کام نمٹا لوں میں نے ویسے بھی پاکستان بھر میں جانا ہے کسی اور جلسہ میں محترمہ کی کوریج کر لوں گا.
میں فوری طور پر جلسہ گاہ سے باہر نکل آیا یہ وہ دور تھا جب نا تو سمارٹ فون تھے نا وائر لیس براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی ڈیوائسیز ہوتی تھی اس وقت ڈائل اپ کے زریعہ یا کسی انٹر نیٹ کیفے سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کیلئے استفادہ کرنا پڑتا تھا میں نے قریب ہی ایک انٹرنیٹ کیفے تلاش کیا کیفے والے سے لین کارڈ کیبل لی لیپ ٹاپ پر انٹر نیٹ کنکٹ کرکے کام شروع کر دیا تب انٹرنیٹ کی رفتار بہت سست ہوتی تھی جس کی وجہ سے مجھے چند ای میل کرنے اور چند فوٹو ایڈٹ کرکے بھیجنے میں بھی کافی وقت لگ گیا ابھی میرا کام ختم ہی ہونے والا تھا کہ دھماکے کی ہلکی سی آواز اور کچھ فائرنگ کی آوازیں سنیں جس پر میں نے دیہان نا دیا کہ شہر ہے ایسی آوازوں کا آنا معمول ہے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد کسی نے کہا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ ہو گیا یہ بات سننا ہی تھی کہ میں نے لیپ تاپ بند کر کے بیگ میں ڈالا اور دوڑ پڑا جوں ہی میں لیاقت باغ کے اس مقام پر پہنچا جہاں دھماکہ ہوا تھا وہاں پر طرف افرا تفری تھی آہ بکا تھی ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا ذخمیوں کو وہاں سے منتقل کیا جارہا رہا تھا میں نے بھی چند فوٹو بنائے لیکن کوریج سے زیادہ مجھے بھی بینظیر بھٹو کے حوالے سے معلومات درکار تھیں کہ ان کا کیا حال ہے اس دوران پتہ چلا کہ بینظیر بھٹو کو شدید ذخمی حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اسی دوران جائے وقوعہ کو ٹیپ لگا کربند کیا جانے لگا اور فائر برگیڈ بھی پہنچ گئی پانی سے جگہ کو دھویا جانے لگا میں وہاں سے پیدل اسپتال کی طرف چل دیا اسپتال پہنچتے پہنچتے مغرب ہو گئی اسپتال کے اندر اور باہر کے مناظر ہی دل دہلا دینے والے تھے کارکن جن میں خواتین نوجوان بوڑھے سبھی شامل تھے اور رو رہے تھے مجھے ایک خاتون نظر آئی جو اس طرح رو رہی تھی کہ جیسے اس کا کوئی خونی رشتہ دار جدا ہو گیاہو غور سے دیکھا تو میں اس خاتون کو پہچان گیا اس کا تعلق مظفرآباد سے تھا جو راولپنڈی میں مقیم تھی اور شروع سے ہی جیالی تھی اسی اثنا میں خبر آ گئی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو چکی ہیں یہ خبر سننا تھی کہ میں خود بھی رونے لگا آج بھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو بھرپور کوشش کے اپنے آنسو نہین روک پایا کیوں کہ یہ میری زندگی کا ایسا لمحہ ہے جس ذخم ہرے ہو جاتے ہیں آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں اور حسرتیں مچلتی ہیں افسوس ہوتا ہے میں اپنے آپ کو کوستا ہوں کہ میں ایک تاریخ کو موقع ملنے کے باوجود نا دیکھ سکا ان تاریخی لمحات کو اپنے کیمرے میں محفوظ نا کر سکا ایسا موقع میں نے گنوا دیا جس کو میں محفوظ بنانے کا اعزاز حاصل نا کر سکا میں اس جلسہ اور اس جلسہ سے محترمہ بینظیر بھٹو کے خطاب کی تصاویر نا بنا سکا ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کے جذبات کا جواب دینے کے محترمہ کی عکاسی نا کرسکا اور میں محروم رہا تاریخ کے ایک بڑے واقعے کو فلمانے میں یہ سب سوچتا ہوں تو سرد آہ بھرتا ہوں اور بے ساختہ کہہ اٹھتا ہوں کہ کاش میں جلسہ گاہ سے باہر ناجاتا.


شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *