ڈاکٹر عتیق الرحمن
ایسوسی ایٹ پروفیسر
آزاد کشمیر یونیورسٹی
آئیے آپ کو آسان ترین لفظوں میں سمجھاؤں کے اقتصادی بحران کیسے پیدا ہوتے ہیں، اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے
مظفرآباد میں تقریبا 95 فیصد سبزی اور پھل مانسہرہ سے منگوائے جاتے ہیں ۔فرض کیجیے مانسہرہ میں کسی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار شدید متاثر ہوجاتی ہے، جس سے مظفرآباد میں سبزی اور پھل کی سپلائی متاثر ہوجاتی ہے۔ اب مظفرآباد سبزی اور پھل کی مقدار بہت کم دستیاب ہے اور جو دستیاب ہے اس کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ لوگ اپنی معمول کی آمدن میں سبزی اور فروٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، مظفرآباد میں ان اشیاء کا استعمال بہت کم ہو چکا ہے اور بچے بڑے مناسب خوراک نہ ہونے کے سبب غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سبزی کی کمی اور مہنگا ہونے کی وجہ سے ہوٹلوں پر بھی کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہو چکی ہیں۔
مندرجہ بالا صورت حال ایک چھوٹا سا اقتصادی بحران ہے، جو سپلائی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اس اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت آزاد کشمیر تین قسم کے اقدامات کر سکتی ہے۔
ایک آپشن یہ ہے کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے روک لے، سبزی کے کاروباریوں کے لیے قرض بند کر دیئے جائیں اور لوگوں کو سبزی فروٹ نہ خریدنے کی ترغیب دی جائے تا کہ سبزی اور فروٹ کم خریدا جائے اور اس کی قیمت کم ہو۔ یہ ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سبزی فروٹ کی ڈیمانڈ کم کر کے قیمتیں کنٹرول کی جائیں۔
کیا آزاد کشمیر حکومت اس طرح اس مہنگائی کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ نہیں، کیونکہ مانسہرہ میں جتنی سبزی اور فروٹ پیدا ہوتا ہے ، اس کا صرف پانچ فیصد مظفرآباد سپلائی کیا جاتا ہے۔ اگر مظفرآباد میں ڈیمانڈ بالکل ختم ہو جائے تب بھی مانسہرہ کی سبزی منڈی میں اس کی ڈیمانڈ میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑنے والا، اس لئے ڈیمانڈ مینیجمنٹ سے قیمتیں کم ہونا بعید از قیاس ہے۔ اس کے برعکس اگر سبزی فروٹ کے کاروباریو ں کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں گی تو کاروباری لاگت بڑھنے سے سبزی فروٹ کی قیمتیں مزید بڑھنے کے امکانات موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ ڈیمانڈ مینجمنٹ کی وجہ سے سبزی فروٹ کے تاجر متاثر ہوں گے، بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کی حقیقی آمدن میں کمی ہوگی، بالخصوص کم آمدن والے طبقات ان اقدامات سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
حکومت کے پاس دوسرا آپشن یہ موجود ہے کہ وہ مظفراباد کے مقامی لوگوں کو سبزی یا فروٹ اگانے کے لئے تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کرے، لوگوں کو بیج اور دیگر پیداواری اشیاء خریدنے کیلئے قرض دئے جائیں اور سبزیاں لگانے کے لیے بھرپور ترغیب دی جائے۔ اس حکمت عملی سے فوری طور پر قیمتوں میں کمی بعید از قیاس ہے، لیکن کچھ مدت میں اس کے مثبت نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ فرض کیجئے کہ حکومت کی مالی اور تکنیکی معاونت کے سبب مظفرآباد کے گردو نواح میں 500 افراد سبزی کی فارمنگ شروع کرتے ہیں، تقریبا تین مہینے بعد سبزی کی مقامی پیداوار مارکیٹ میں آنا شروع ہو جائے گی اور چھ مہینے تک مقامی مارکیٹ میں مقامی پیداوار کی بھرمار ہو جائےگی۔ وافر پیداوار کے سبب مارکیٹ میں سبزی اور فروٹ کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو جائیں گی اور کچھ عرصے بعد اقتصادی بحران اختتام پذیر ہو جائے گا ۔ یہ آپشن اختیار کرنے کے سبب بہت سارے لوگوں کو نیا روزگار میسر آئے گا، اورمقامی سطح پر خود کفالت کی منزل بھی حاصل ہوگی۔
جب مقامی سطح پر پیداوار شروع کرنے کا آغاز کیا جائے گا تو اس وقت ممکن ہے کہ مہنگائی کی ایک زیادہ شدید لہر کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے کہ مقامی سطح پر پیداوار شروع کرنے کے لئے مشینوں اور دیگر ساز و سامان کی خرید کی ضرورت ہوگی ،جس کی وجہ سے ڈیمانڈ مزید بڑھ سکتی ہے ۔فرض کیجیے مانسہرہ اور مظفر آباد میں دو الگ الگ کرنسی رائج ہوں تو ایسی صورت میں مانسہرہ کی مارکیٹ میں خریداری کے لیے مانسہرہ کی کرنسی درکار ہوگی، جس سے مانسہرہ کی کرنسی کی قیمت مزید بڑھنے کی توقع ہے ۔کرنسی کی قیمتوں میں یہ اضافہ مظفرآباد میں تمام درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا ، جس سے دگنا افراط زر کا خدشہ ہے۔ تاہم درآمدی سامان کو کئی گنا زیادہ پیداوار کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اگر اس درآمدی ساز و سامان سے مناسب پیداوار حاصل کی جائے تو چند مہینوں بعد درامدی اموال میں کمی ہوگی جس سے کرنسی کی قیمت مستحکم ہو جائے گی۔
ایک تیسرا آپشن یہ بھی ہے کہ مظفرآباد کی حکومت اپنے دوستوں سے مزید قرضے پکڑ کر سبزی فروٹ خرید کر مقامی مارکیٹ میں سبسڈائزڈ ریٹ پر سپلائی کرے اور لوگوں کو خوش کرے۔ اس طرح وقتی طور پر لوگوں کو خوش رکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ حکمت عملی طویل مدت میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی دوست طویل عرصے تک تسلسل سے آپ کو قرض دینے پر تیار نہیں ہوگا اور جب مزید قرض ملنے کا سلسلہ ٹوٹا ، کرنسی کی قیمت میں شدید بحران کا سامنا ہوگا، جس سے مظفرآباد کے باسیوں کو شدید افراط زر کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مندرجہ بالا تقابل یہ بات واضح ہوگئی کہ سب سے بہترین آپشن یہ ہے کہ وقتی طور پر سختی برداشت کی جائے لیکن مقامی پیداوار کو ترجیح دی جائے۔ بالکل اسی قسم کی صورت حال ہمیں اس وقت ملکی سطح پر درپیش ہے۔ ہماری مقامی پیداوار ہماری ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے اور ہم اپنی ضرورت کی بہت سی اشیاء باہر سے منگواتے ہیں۔ دنیا کو اس وقت مہنگائی کا سامنا ہے، اور یہ مہنگائی پاکستان پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ درآمدی اشیاء کی ڈالر ویلیو میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسرا یہ کہ ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھنے کے سبب ڈالر کی اپنی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ دونوں عوامل مل کر قیمتوں کو بہت تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پچھلے پانچ سالوں سے ڈیمانڈ مینجمنٹ سٹریٹجی استعمال کی جا رہی ہے یعنی ڈیمانڈ کو کم کرکے قیمتوں میں کمی کی جائے۔ لیکن عالمی مارکیٹ اتنی بڑی ہے کہ ہم اگر ڈیمانڈ کو بالکل صفر کر دیں تب بھی عالمی مارکیٹ میں 1 فیصد کا فرق ممکن نہیں ۔ جب تک بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں کم نہیں ہوں گی، پاکستان میں قیمتوں میں کمی ممکن نہیں۔
یہ ایک سادہ سی بات ہے جو عام آدمی کو آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے لیکن اکثر ماہرین معیشت اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ حالات میں بہترین حکمت عملی یہ ہو سکتی تھی کہ جن اشیاء کی مقامی پیداوار ممکن ہے، ان اشیاء کی پیداوار کو ہنگامی طور پر بڑھانے کے لئے لوگوں کو سہولت دی جاتی لیکن پچھلے پانچ سالوں سے ہم اس کے بالکل الٹ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، اور شرح سود کو اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ عملا قرض لے کر کاروبار کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کی قوت خرید زوال پزیر ہے اور ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں بحران سے نمٹنے کیلئے مالیاتی توسیع کا رستہ اپنایا جاتا ہے یعنی لوگوں کی مالی وسائل تک رسائی آسان بنائی جاتی ہے، لیکن پاکستان اور اس جیسے مجبور ممالک کیلئے آئی ایم ایف کی نصیحتیں بدل جاتی ہیں۔
آج بھی اگر زرعی ایمرجنسی نافذ کر کے یہ عزم کر لیا جائے کہ پاکستان زرعی اجناس نہیں منگوائے گا تو چھ ماہ میں اقتصادی بحران سے نکلنے کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف سے پین کلر pain killer لیکر وقتی سکون کی تلاش میں رہے تو اگلے بیس سال بھی پاکستان کے نازک موڑ میں ہی گزریں گے۔